سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں
سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں
ملیں جو گم شدہ راہیں تو لوٹ کر جاؤں
مسلسل ایک سی گردش سے ہے قیام اچھا
زمین ٹھہرے تو میں بھی کہیں ٹھہر جاؤں
سمیٹوں خود کو تو دنیا کو ہاتھ سے چھوڑوں
اثاثہ جمع کروں میں تو خود بکھر جاؤں
ہے خیر خواہوں کی تلقین مصلحت بھی عجیب
کہ زندہ رہنے کو میں جیتے جی ہی مر جاؤں
صبا کے ساتھ ملا مجھ کو حکم دربدری
گلوں کی ضد ہے مزاج ان کا پوچھ کر جاؤں
مری اڑان اگر مجھ کو نیچے آنے دے
تو آسمان کی گہرائی میں اتر جاؤں
وہ کہہ گیا ہے کروں انتظار عمر تمام
میں اس کو ڈھونڈنے نکلوں نہ اپنے گھر جاؤں
کہاں اٹھائے پھروں بوجھ اپنے سر کا وحیدؔ
یہ جس کا قرض ہے اس کے ہی در پہ دھر جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.