راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
ہاں رہرو مراد قدم رکھ سنبھال کے
فتنوں کو دیکھ اپنے قدم روک بیٹھ جا
راتیں یہ آفتوں کی ہیں یہ دن وبال کے
میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے
کچھ یہ نہ تھا کہ میں نے نہ سمجھی بساط دہر
میں خود ہی کھیل ہار گیا دیکھ بھال کے
سامان دل کو بے سر و سامانیاں ملیں
کچھ اور بھی جواب تھے میرے سوال کے
لمحوں کی لے پہ گزری ہیں راتیں نشاط کی
کس دھن میں دن کٹیں گے یہ رنج و ملال کے
تخلیق ہے مری تری تخلیق سے الگ
میں بھی بناتا رہتا ہوں پیکر خیال کے
پیاسی زمین دل ہے پڑا قحط فصل شوق
ہاں اے ہوا کدھر گئے دن برشگال کے
باقرؔ یہ دانت بیچ زباں بند کیوں ہوئی
قائل تو آپ بھی تھے بہت قیل و قال کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.