پوچھو مجھے اے ہم نفساں کون ہوں کیا ہوں
پوچھو مجھے اے ہم نفساں کون ہوں کیا ہوں
یارو میں کوئی حشر کے میداں میں کھڑا ہوں
تم رنگ میں دیکھو تو ہوں مرجھایا ہوا پھول
آواز میں میں ٹوٹتے شیشے کی صدا ہوں
میری بھی حکایت ہے وہی دل زدگی کی
پر درد کے عنوان میں مضمون جدا ہوں
کچھ میرے ہی دم سے ہیں بہاروں کے معانی
میں پیرو گل گل کی طرح چاک قبا ہوں
ہوں بند خیالوں میں کہ جوں پھول میں خوشبو
آزادہ روی میں صفت موج صبا ہوں
خواہش پہ مجھے ٹوٹ کے گرنا نہیں آتا
پیاسا ہوں مگر ساحل دریا پہ کھڑا ہوں
شاید یہی تریاق بنے زہر فنا کا
میں تلخیٔ ایام کا ست کھینچ رہا ہوں
پھولوں کی رفاقت میں تو پائے ہیں پھپھولے
کانٹوں سے ہے امید کہ میں آبلہ پا ہوں
دن روز قیامت ہے کہ کاٹے نہیں کٹتا
تنہا ہوں کہ خود سائے سے بھی اپنے جدا ہوں
رات آئے تو سو جاؤں اندھیروں سے لپٹ کر
میں صبح سے ڈرتا ہوں کہ سورج کا ڈسا ہوں
کترا کے نہ چل راہ بھٹک جائے گا راہی
میں رہر و امید کا نقش کف پا ہوں
اس دور خرافات میں بے قدر ہوں پھر بھی
تو جتنا سمجھتا ہے میں کچھ اس سے سوا ہوں
ہر رنگ ہر آہنگ مرے سامنے عاجز
میں کوہ معانی کی بلندی پہ کھڑا ہوں
نکلیں گی چٹانوں سے مری فکر کی نہریں
میں لفظ کے تیشے سے انہیں کاٹ رہا ہوں
میں کیمیا گر خود کو جلاتا ہی رہوں گا
اور تو یہ سمجھتا ہے کہ جینے سے خفا ہوں
پیدا مرے نغموں سے ہوئیں نور کی لہریں
میں خالق تہذیب اندھیروں کی ضیا ہوں
باقرؔ مجھے کچھ داد سخن کی نہیں پروا
میں شہر خموشاں میں ہوں اور نغمہ سرا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.