نمک کی روز مالش کر رہے ہیں
نمک کی روز مالش کر رہے ہیں
ہمارے زخم ورزش کر رہے ہیں
سنو لوگوں کو یہ شک ہو گیا ہے
کہ ہم جینے کی سازش کر رہے ہیں
ہماری پیاس کو رانی بنا لیں
کئی دریا یہ کوشش کر رہے ہیں
مرے صحرا سے جو بادل اٹھے تھے
کسی دریا پہ بارش کر رہے ہیں
یہ سب پانی کی خالی بوتلیں ہیں
جنہیں ہم نذر آتش کر رہے ہیں
ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے
ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں
تری تصویر، پنکھا، میز، مفلر
مرے کمرے میں گردش کر رہے ہیں
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 103)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.