کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
کیا کہیے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے
اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گل نہ رہے نکہت گل خاک ملے گی
یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی
خوددار ہوں کیوں آؤں در اہل کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
پیڑوں سے جہاں چھن کے ضیا تک نہیں آتی
یا جاتے ہوئے مجھ سے لپٹ جاتی تھیں شاخیں
یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی
کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی
چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوت گل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا
ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی
بہتر ہے پلٹ جاؤ سیہ خانۂ غم سے
اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.