کسی گمان و یقین کی حد میں وہ شوخ پردہ نشیں نہیں ہے
جہاں نہ سمجھو اسی جگہ ہے جہاں سمجھ لو وہیں نہیں ہے
تمہارا وعدہ ہے کیسا وعدہ کہ جس کا دل کو یقیں نہیں ہے
نگین بے نقش تو ہزاروں یہ نقش ہے اور نگیں نہیں ہے
تصوروں کے فریب اٹھا کر مشاہدہ وہم بن رہا ہے
نظر نے کھائے ہیں اتنے دھوکے کہ دیکھ کر بھی یقیں نہیں ہے
تلون اک جزر و مد ہے خود ہی تھپیڑوں میں آ پھنسی ہے کشتی
خبر ہے مدت کے ڈوبے دل کی کہ آج تک تہہ نشیں نہیں ہے
یہ کہتی ہے گردش زمانہ قدم تھمیں گے نہ اب کسی جا
ہے یہ بھی اک آسماں کا ٹکڑا تری گلی کی زمیں نہیں ہے
وفا کی حامی حمیت ان کی حریف امید غیرت ان کی
نگاہیں اقرار کر رہی ہیں زباں پہ لیکن نہیں نہیں ہے
ہوا جو اک دل کا داغ روشن تو ہو گئے کل چراغ روشن
خیال روشن دماغ روشن بس اب اندھیرا کہیں نہیں ہے
سرشک خونیں کا کل فسانہ لپیٹ رکھا ہے اک ورق میں
نچوڑنے پر لہو نہ ٹپکے تو آستیں آستیں نہیں ہے
ہماری ناکامیٔ وفا نے زمانے کی کھول دی ہیں آنکھیں
چراغ کب کا بجھا پڑا ہے مگر اندھیرا کہیں نہیں ہے
مجھی پہ کیا ہے نہیں ہے کس میں یہ بت تراشی یہ بت پرستی
اگر نہ حسن نظر سے دیکھو تو کوئی بھی پھر حسیں نہیں ہے
رہ اطاعت میں آرزوؔ نے قدم قدم پہ کئے ہیں سجدے
جو آپ کا نقش پا نہیں ہے وہ اس کا نقش جبیں نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.