کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا
کس طرح بے موج اور خالی روانی سے ہوا
بے خبر دریا کہاں پر اپنے پانی سے ہوا
بڑھ رہی تھی ایک بستی سے مری بیگانگی
مسئلہ میرا نہ حل نقل مکانی سے ہوا
اپنے ہونے کا مجھے خود ہی دیا اس نے ثبوت
آشنا اس سے اسی کی اک نشانی سے ہوا
کہہ رہا تھا وہ کہ کیسے کٹ رہے تھے اس کے دن
میں گرفتہ دل بہت اس کی کہانی سے ہوا
اک جگہ کی صاف اور تازہ ہوا اچھی لگی
کچھ علاج دل وہاں کے سادہ پانی سے ہوا
کس قدر غم خوار تھا وہ شہر اور ہمدرد لوگ
اس کا کچھ اندازہ اپنی رائیگانی سے ہوا
رت بدل جانے سے پیلا پڑ گیا فرش چمن
زرد پیڑوں کا بدن برگ خزانی سے ہوا
کر رہا ہوں میں زباں کو اک بناوٹ سے رہا
لفظ زندہ پھر مری سادہ بیانی سے ہوا
میرے اس کے درمیاں جیسے کبھی کچھ بھی نہ تھا
ایسا شاہیںؔ بس ذرا سی بدگمانی سے ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.