خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے
خوشبو ہے کبھی گل ہے کبھی شمع کبھی ہے
وہ آتش سیال جو سینے میں بھری ہے
بادہ طلبی شوق کی دریوزہ گری ہے
صد شکر کہ تقدیر ہی یاں تشنہ لبی ہے
غنچوں کے چٹکنے کا سماں دل میں ابھی ہے
ملنے میں جو اٹھ اٹھ کے نظر ان کی جھکی ہے
اب ضبط سے کہہ دے کہ یہ رخصت کی گھڑی ہے
اے وحشت غم دیر سے کیا سوچ رہی ہے
معصوم ہے یاد ان کی بھٹک جائے نہ رستہ
خوں گشتہ تمناؤں کی کیوں بھیڑ لگی ہے
یادوں سے کہو سولہ سنگھار آج کرائیں
آئینہ بہ کف حسرت دیدار کھڑی ہے
لب سی لیے اندیشۂ دشنام جہاں سے
اب اپنی خموشی ہی اک افسانہ بنی ہے
ٹھہری ہے تو اک چہرے پہ ٹھہری رہی برسوں
بھٹکی ہے تو پھر آنکھ بھٹکتی ہی رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.