ساز فرقت پہ غزل گاؤ کہ کچھ رات کٹے
ساز فرقت پہ غزل گاؤ کہ کچھ رات کٹے
پیار کی رسم کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
جب یہ طے ہے کہ غم عشق بہت کافی ہے
غم کا مفہوم ہی سمجھاؤ کہ کچھ رات کٹے
صبح کے ساتھ ہی ہم خود بھی بکھر جائیں گے
دو گھڑی اور ٹھہر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
دامن درد پہ بکھرے ہوئے آنسو کی طرح
میری پلکوں پہ بھی لہراؤ کہ کچھ رات کٹے
ذکر گلزار سہی قصۂ دل دار سہی
زخم کے پھول ہی مہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ایک ایک درد کے سینہ میں اتر کر دیکھو
ایک ایک سانس میں لہراؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کی وادی میں ہے تاریک گھٹاؤں کا ہجوم
چاندنی بن کے نکھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
قاتل شہر سے بچ کر میں ابھی آیا ہوں
میں اکیلا ہوں چلے آؤ کہ کچھ رات کٹے
فرش کرنوں کا بچھا دے گی سحر آ کے رئیسؔ
دل کے زخموں کو بھی چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.