خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے
خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے
کام نکلا تو ہے ان کا مجھے رسوا کر کے
روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
اس طرف کام ہمارا تو نہیں ہے کوئی
آ نکلتے ہیں کسی شام تمہارا کر کے
مٹ گئی ہے کوئی مڑتی ہوئی سی موج ہوا
چھپ گیا ہے کوئی تارا سا اشارا کر کے
فرق اتنا نہ سہی عشق و ہوس میں لیکن
میں تو مر جاؤں ترا رنگ بھی میلا کر کے
صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیت دل
دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کر کے
شوق سے کیجیے اور دیر نہ فرمائیے گا
کچھ اگر آپ کو مل جائے گا ایسا کر کے
یوں بھی سجتی ہے بدن پر یہ محبت کیا کیا
کبھی پہنوں اسی ملبوس کو الٹا کر کے
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.