کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے
کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے
ہو التجا بھی کچھ ایسی کہ التجا نہ لگے
پرانی باتیں ہیں اب ان کا ذکر بھی چھوڑو
اگر کسی کو سناؤں تو اک فسانہ لگے
وہ ایک لمحہ تھا جس نے کیا مجھے بسمل
میں داستان بتاؤں تو اک زمانہ لگے
بسے ہیں جلوے کچھ ایسے نگاہ عاشق میں
جسے بھی دیکھے کوئی تجھ سے ماسوا نہ لگے
نہ جانے کون سی منزل پہ عشق آ پہونچا
دعا بھی کام نہ آئے کوئی دوا نہ لگے
فریب رہ کے بھی محرومیاں مقدر تھیں
نظر اٹھاؤں تو اس کو کہیں برا نہ لگے
یہ کائنات کی سچائی اب کہاں ڈھونڈوں
سہانی رات کا منظر ہو اور سہانا لگے
میں دور بیٹھا تھا صحرا میں اک امید لیے
اسے بتاؤں تو یہ سچ بھی اک بہانہ لگے
بنا لیا ہے اک آئینہ اپنے دل کو شہیدؔ
مجھے تو شہر میں اب کوئی بے وفا نہ لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.