اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی
ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا
سرد رت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی
موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب
پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی
خار قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے
ناخن تدبیر کی کاوش بہت مہنگی پڑی
اس عمل نے تو کہیں کا بھی نہ رکھا دوستو
خود کو چاہے جانے کی خواہش بہت مہنگی پڑی
ذکر قحط رنگ سے پہلے ہی تالے پڑ گئے
ہر لب تصویر کو جنبش بہت مہنگی پڑی
تند خو موجوں نے ساجدؔ چاند ساحل کھا لیے
بحر شب میں امن کی کوشش بہت مہنگی پڑی
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 340)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.