ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگزار مگر درمیان تھا
لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں
جھپکی جو آنکھ سر پہ نیا آسمان تھا
کہنے کو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
پوچھو تو دوسری ہی طرف اپنا دھیان تھا
اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن
کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا
شعلے اگلتے تیر برستے تھے چرخ سے
سایہ تھا پاس میں نہ کوئی سائبان تھا
سب سے کیا ہے وصل کا وعدہ الگ الگ
کل رات وہ سبھی پہ بہت مہربان تھا
منہ پھٹ تھا بے لگام تھا رسوا تھا ڈھیٹ تھا
جیسا بھی تھا وہ دوستو محفل کی جان تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.