ہوں جو سارے دست و پا ہیں خوں میں نہلائے ہوئے
ہوں جو سارے دست و پا ہیں خوں میں نہلائے ہوئے
ہم بھی ہیں اے دل بہاراں کی قسم کھائے ہوئے
خبط ہے اے ہم نشیں عقل حریفان بہار
ہے خزاں ان کی انہیں آئینہ دکھلائے ہوئے
کیا ہے ذکر آتش و آہن کہ غداران گل
مارتے ہیں ہاتھ انگاروں پہ گھبرائے ہوئے
زندگی کی قدر سیکھی شکریہ تیغ ستم
ہاں ہمیں تھے کل تلک جینے سے اکتائے ہوئے
سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار
تجھ سے کیا بہلیں گے طوفانوں کے بہلائے ہوئے
ہے یہی اک کاروبار نغمہ و مستی کہ ہم
یا زمیں پر یا سر افلاک ہیں چھائے ہوئے
ساز اٹھایا جب تو گرماتے پھرے ذروں کے دل
جام ہاتھ آیا تو مہر و مہ کے ہمسائے ہوئے
دشت و در بننے کو ہیں مجروحؔ میدان بہار
آ رہی ہے فصل گل پرچم کو لہرائے ہوئے
- کتاب : kulliyat-e- Majruuh sultanpuri (Pg. 139)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.