ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیئے ستانے کو
سنگ در سے ترے نکالی آگ
ہم نے دشمن کا گھر جلانے کو
صبح عشرت ہے وہ نہ شام وصال
ہائے کیا ہو گیا زمانے کو
بوالہوس روئے میرے گریہ پہ اب
منہ کہاں تیرے مسکرانے کو
برق کا آسمان پر ہے دماغ
پھونک کر میرے آشیانے کو
سنگ سودا جنوں میں لیتے ہیں
اپنا ہم مقبرہ بنانے کو
شکوہ ہے غیر کی کدورت کا
سو مرے خاک میں ملانے کو
روز محشر بھی ہوش گر آیا
جائیں گے ہم شراب خانے کو
سن کے وصف اس پہ مر گیا ہمدم
خوب آیا تھا غم اٹھانے کو
کوئی دن ہم جہاں میں بیٹھے ہیں
آسماں کے ستم اٹھانے کو
چل کے کعبہ میں سجدہ کر مومنؔ
چھوڑ اس بت کے آستانے کو
نقش پائے رقیب کی محراب
نہیں زیبندہ سر جھکانے کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.