دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
اب رات کے دریا میں پڑا ڈوب رہا ہوں
اب تک میں وہیں پر ہوں جہاں سے میں چلا ہوں
آواز کی رفتار سے کیوں بھاگ رہا ہوں
رکھتے ہو اگر آنکھ تو باہر سے نہ دیکھو
دیکھو مجھے اندر سے بہت ٹوٹ چکا ہوں
یہ سب تری مہکی ہوئی زلفوں کا کرم ہے
اک سانس میں اک عمر کے دکھ بھول گیا ہوں
تو جسم کے اندر ہے کہ باہر ہے کدھر ہے
علویؔ مری جاں کب سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
- کتاب : لفافے میں روشنی (Pg. 42)
- Author :محمد علوی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.