دھوپ تھی سایہ اٹھا کر رکھ دیا
یہ سجا تاروں کا محضر رکھ دیا
کل تلک صحرا بسا تھا آنکھ میں
اب مگر کس نے سمندر رکھ دیا
سرخ رو ہوتی ہے کیسی زندگی
دوستوں نے لا کے پتھر رکھ دیا
مندمل زخموں کے ٹانکے کھل گئے
بے سبب تم نے رلا کر رکھ دیا
ثابت و سالم تھا دامن کل تلک
تم نے آخر کیوں جلا کر رکھ دیا
مٹ گئی تشنہ لبی آخر مری
جب گلے پر اس نے خنجر رکھ دیا
رو پڑیں آنکھیں بہت ساحلؔ مری
جب کسی نے ہاتھ سر پر رکھ دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.