دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے
دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے
کیا تماشا ہے کہ بے ایام گل
ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئنے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
اب تو خوش ہو جائیں ارباب ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے
حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے
اے سکوت شام غم یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے
دل کو تیرے غم نے پھر آواز دی
کب کے بچھڑے پھر اکٹھے ہو گئے
آؤ ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اس گھر کے دریچے ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.