دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
ہوتا ہے اب بھی عشق نہ ہونے کے باوجود
شاید یہ خاک میں ہی سمانے کی مشق ہو
سوتا ہوں فرش پر جو بچھونے کے باوجود
کرتا ہوں نیند میں ہی سفر سارے شہر کا
فارغ تو بیٹھتا نہیں سونے کے باوجود
ہوتی نہیں ہے میری تسلی کسی طرح
رونے کا انتظار ہے رونے کے باوجود
پانی تو ایک عمر سے مجھ پر ہے بے اثر
میلا ہوں جیسے اور بھی دھونے کے باوجود
بوجھل تو میں کچھ اور بھی رہتا ہوں رات دن
سامان خواب رات کو ڈھونے کے باوجود
تھی پیاس تو وہیں کی وہیں اور میں وہاں
خوش تھا ذرا سا ہونٹ بھگونے کے باوجود
یہ کیمیا گری مری اپنی ہے اس لیے
میں راکھ ہی سمجھتا ہوں سونے کے باوجود
ڈرتا ہوں پھر کہیں سے نکالیں نہ سر ظفرؔ
میں اس کو اپنے ساتھ ڈبونے کے باوجود
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.