چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی
چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی
سورج کو ڈھلتا دیکھ کے پھر شام ڈر گئی
مبہوت سے کھڑے رہے سب بس کی لائن میں
کولہے اچھالتی ہوئی بجلی گزر گئی
سورج وہی تھا دھوپ وہی شہر بھی وہی
کیا چیز تھی جو جسم کے اندر ٹھٹھر گئی
خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر
اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی
تحلیل ہو گئی ہے ہوا میں اداسیاں
خالی جگہ جو رہ گئی تنہائی بھر گئی
چہرے بغیر نکلا تھا اس کے مکان سے
رسوائیوں کی حد سے بھی آگے خبر گئی
رنگوں کی سرخ ناف داکھلیا گلاآفتاب
اندھی ہوائیں خار کھٹک کان بھر گئی
- کتاب : Hashr ki subh darakhshaz ho (Pg. 268)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.