aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
رات بہت ہوا چلی‘ رئیس فروغ کا اکلوتا شعری مجموعہ ہے ۔رئیس فروغ کا نام ہندوستان میں کم لوگ جانتے ہیں ۔عجیب بات ہے اچھے شاعروں کے پیچھے چلے جانے کی کوئی نہ کوئ وجہ بن ہی جاتی ہے ،رئیس فروغ کا انتقال کم عمری میں ہی ہوگیا ان کا مجموعہ کلام بھی بہت دیر سے چھپا۔ان بظاہر غیر اہم سی باتوں نے رئیس فروغ کی شعری ہنرمندی کو ذرا دیر سے عام ہونے دیا ،لیکن اچھا شعری متن ایک سطح پر آکر اپنے وجود کا احساس کراہی لیتا ہے۔آج جن لوگوں کو نئی غزل کے جو چند اچھے شعر یاد ہیں ان میں ایک دو شعر رئیس فروغ کے بھی ہوتے ہیں ۔رئیس فروغ کے کلام کی بنیادی شناخت اس کے چونکانے کی صفت ہے ۔رئیس فروغ کا متن موضوع کی منفرد جہتوں اور زبان کے مختلف اور بدلے ہوئے کردار سے تشکیل پاتا ہے ۔آپ ان کی شاعری کے مطالعہ کے دوران باربار یہ محسوس کریں گے کہ کس طرح یہ شاعر اپنی تخلیقی ضرورتوں میں زبان کو اپنی شرطوں پر استعمال کرتا ہے ،ایک بہت سہل تخلیقی بیانیہ شروع سے آخر تک موجود ہے۔ان کے تخلیقی تجربے پر لفظوں کے حاوی پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ہمارے نزدیک یہ ایک تخلیق کار کی بڑی صفت ہے۔ آپ رئیس فروغ کو پڑھئے اور ان کی شاعری پر مکالمہ قائم کیجئے ،ہم چاہتے ہیں ادب پر زندہ بحثوں کا آغاز ہو سکے۔
محمد یونس حسن نام اور فروغ تخلص تھا۔۱۵؍فروری۱۹۲۶ء کو مرادآباد میں پید اہوئے۔ دوران تعلیم محفلوں، انجمنوں اور مشاعروں میں شرکت کے باعث رئیس فروغ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ شروع میں انھوں نے قمر مراد آبادی کی شاگردی اختیار کی۔تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔۱۵سال کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازم رہے۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے او راسکرپٹ رائٹرمقرر ہوئے۔آخری وقت تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ رئیس فروغ نے غزلوں کے علاوہ بچوں کے لیے نظمیں اور نثری نظمیں بھی لکھی ہیں۔۱۵؍اگست۱۹۸۲ء کو کراچی میں رئیس فروغ انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’رات بہت ہوا چلی‘(مجموعۂ کلام)، ’ہم سورج چاند ستارے‘(بچوں کی نظمیں)۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:183
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets