aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
صوت سرمدی سننے کے لئے اور اسے سن کر نغمہ سنج ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قلب و ذہن کی تمام تر آلائشوں سے انسان خود کو پاک و صاف کرے۔ جب اس کا دل صاف اور خالص ہو جائے گا تو اس کا ذہن اس ذات کے بارے میں سوچنا شروع کر دیگا ۔جو مسلسل و مستقل فیکن کی صدا بلند کرتا رہتا ہے۔ مگر اس نغمہ اصلی کو سننے کے لئے بصیرت ربانی ضروری ہے۔ جس دن اسے یہ حاصل ہو جاتی ہے اسی دن سے وہ خدا کی ذات سے جو کچھ بھی استفادہ کرتا ہے اور عالم غیب سے جو کچھ سنتا ہے خود بھی نغمہ سرائی کرنے لگتا ہے۔ پھر اگر اس کو "انا الحق" کی صدا سنائی دیتی ہے تو خود بھی انا الحق کی بانگ بلند کرنے لگتا ہے۔بیدم وارثی انہیں شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے خدا کی ذات میں محو ہوکر نغمہ سرائی کی ۔ یہ ان کے ابتدائی زمانے کا کلام ہے جو ذات ربانی سے والہانہ جذب کی حالت میں لکھا گیا۔
بیدم شاہ وارثی کا اصل نام غلام حسین تھا ۔ پیر و مرشد سید وارث علی شاہ نے ان کا نام بیدم شاہ وارثی رکھا تھا۔ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید انور تھا۔وہ اٹاوہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی اٹاوہ میں ہی ہوئی ۔دوسروں کی غزلیں سن کر گنگنایا کرتے تھے ۔ شاعر بننے کی تمنا میں آگرہ گئے اورثار اکبرآبادی کے شاگرد ہوئے ۔وہ اپنے صوفیانہ ،عارفانہ کلام اور مخصوص مزاج کی وجہ سے سراج الشعراکہے جاتے تھے ۔نعت گو کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔’’مصحف بیدم‘‘ کے نام سے ان کا مجموعۂ کلام چھپ چکاہے۔1936میں حسین گنج لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔انہوں نے اپنے پیر و مرشد کی منظوم سوانح پھولوں کی چادر کے عنوان سے لکھی ۔ان کی شاعری میں صوفیانہ اور عارفانہ کلام کے علاوہ صنفی طور پر بھجن ،ٹھمری،دادرااور پوربی بھاشا کے کلام ملتے ہیں ۔آج بھی ان کا کلام لوگوں کی زبان پر ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free