سمندر سب کے سب پایاب سے ہیں
سمندر سب کے سب پایاب سے ہیں
کناروں پر مگر گرداب سے ہیں
ترے خط میں جو اشکوں کے نشاں تھے
وہی اب کرمک شب تاب سے ہیں
چہک اٹھتا ہے ساز زندگانی
ترے الفاظ بھی مضراب سے ہیں
دلوں میں کرب بڑھتا جا رہا ہے
مگر چہرے ابھی شاداب سے ہیں
ہمارے زخم روشن ہو رہے ہیں
مسیحا اس لیے بیتاب سے ہیں
وہ جگنو ہو ستارہ ہو کہ آنسو
اندھیرے میں سبھی مہتاب سے ہیں
کبھی نشتر کبھی مرہم سمجھنا
مرے اشعار بھی احباب سے ہیں
خوشی تیرا مقدر ہوگی اخترؔ
یہ امکاں اب خیال و خواب سے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.