Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر

خواجہ محمد وزیر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر

خواجہ محمد وزیر

چلا ہے او دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر

زمین کوئے جاناں رنج دے گی آسماں ہو کر

کیا ویراں چمن کو آئے ہو کیا بوستاں ہو کر

ہوئے گل پانی پانی یہ چلی آب رواں ہو کر

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

جواب نامہ کیا لایا تن بے جاں میں جان آئی

گیا یاں سے کبوتر واں سے آیا مرغ جاں ہو کر

غضب ہے روح سے اس جامۂ تن کا جدا ہونا

لباس تنگ ہے اترے گا آخر دھجیاں ہو کر

اگر آہستہ بولوں ناتوانی کہتی ہے بس بس

صدائے جنبش لب دیتے ہی صدمے فغاں ہو کر

ازار آتشیں خط سیہ اک دن نکالے گا

رلائے گا یہ شعلہ میری آنکھوں کا دھواں ہو کر

مکدر ہو اگر لو مجھ کو گاڑو اس طرف دیکھو

کہ زیر خاک ہوں گرد نگہ سے ناتواں ہو کر

کیا غیروں کو قتل اس نے موے ہم رشک کے مارے

اجل بھی دوستو آئی نصیب دشمناں ہو کر

پھرا صد چاک ہو کر کوچۂ کاکل سے دل اپنا

عزیزو یوسف گم گشتہ آیا کارواں ہو کر

کمان ابرو کی ایسے نرم ہے آئے گا جو ناوک

رہے گا استخواں میں اپنے مغز استخواں ہو کر

چھڑائی چوس کر ہم نے مسی تو کیا ہے شرمایا

لب اس محجوب کا چھپنے لگا منہ میں زباں ہو کر

فلک میری طرح آخر تجھے بھی پیس ڈالے گا

اڑے گا اے ہما اک روز گرد استخواں ہو کر

ہما سے ہے کڑا‌ پن اے سگ جاناں جو تو کھائے

ملائم استخواں ہو جائیں مغز استخواں ہو کر

جہاں جو چاہئے ویسی ہی وہ دکھلائے نیرنگی

بصر آنکھوں میں گویائی زباں میں دل میں جاں ہو کر

ستم کر اس کے یہ دیکھے تو خوں ریزی پہ مائل ہو

کرے سنگ ملامت تیز خنجر کو فساں ہو کر

نہانے میں جو لہراتی ہے زلف یار دریا میں

تڑپنے لگتی ہیں پانی پہ موجیں مچھلیاں ہو کر

اداسی جھک کے ملتے ہو نگہ سے قتل کرتے ہو

ستم ایجاد ہو ناوک لگاتے ہو کماں ہو کر

اٹھائے گی جو ہم کو وحشت دل یار کے در سے

گریں گے پائزی پاؤں پہ اپنے بیڑیاں ہو کر

کہا جو اس نے چاہا ضعف سے یاں لب نہیں ملتے

سبک کر دیتی ہیں حرف سخن بار گراں ہو کر

اثر باقی رہا بل بے شب فرقت کی تاریکی

چراغ‌ روز سے شعلہ نکل آیا دھواں ہو کر

خط نوخیز میں عارض جو تیرے چھپتے جاتے ہیں

پری بن جائیں گے اس سبز شیشے میں نہاں ہو کر

گرا قدموں پہ صید ناتواں تھا ہاتھ سے چھٹ کر

جگہ دے اب تو نقش پاے صیاد آشیاں ہو کر

ترے وحشی کو برسوں اے پری کب نیند آتی ہے

اگر خواب گراں آیا بھی تو سنگ گراں ہو کر

وزیرؔ اس کا ہوں میں شاگرد جس کو کہتے ہیں منصف

لیا ملک معانی بادشاہ شاعراں ہو کر

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

You have remaining out of free content pages per year. Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.

بولیے