عذاب بے دلئ جان مبتلا نہ گیا
جو سر پہ بار تھا اندیشۂ سزا نہ گیا
خموش ہم بھی نہیں تھے حضور یار مگر
جو کہنا چاہتے تھے بس وہی کہا نہ گیا
پلٹ کے دیکھنے کی اب تو آرزو بھی نہیں
تھی عاشقی ہمیں جب خوب، وہ زمانہ گیا
رہے مصر کہ اٹھا دیں وہ انجمن سے ہمیں
ہم اٹھنا چاہتے بھی تھے مگر اٹھا نہ گیا
ہمارے نام سے جب ذکر بے وفائی چلا
جنوں میں بول پڑے ہم سے بھی رہا نہ گیا
ہمارا قصۂ غم بیچ میں وہ چھوڑ اٹھے
انہی کی ضد تھی مگر ان ہی سے سنا نہ گیا
زمانے بھر نے کہا عرشؔ جو، خوشی سے سہا
پر ایک لفظ جو اس نے کہا سہا نہ گیا
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 159)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.