تکلی کی پیدائش
دلچسپ معلومات
مدھیہ پردیش کی لوک کہانی
سورگ میں ایک دیوی رہتی تھی۔اس کا نام پھرکی تھاوہ بنائی کاکام اتنی ہوشیاری سے کرتی تھی کہ کچھ نہ پوچھئے جس وقت ہاتھ میں تیلیاں لے کر بیٹھتی تھی بات کی بات میں بڑھیا سے بڑھیا سوئٹر ،بنیان، مفلر وغیرہ بن کر رکھ دیتی تھی۔ اس لئے دور دور تک اس کی تعریف ہورہی تھی۔ پھرکی کی شہرت ہوتے ہوتے رانی کے کانوں تک پہنچی۔ وہ اپنی تمام بچیوں کو بنائی کا کام سکھانا چاہتی تھی اور بہت دن سے ایک ایسی ہی ہوشیار دیوی کی تلاش میں تھی۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کہا۔۔۔’’سنتی ہوں پھرکی بہت ہوشیاری سے بنائی کا کام کرتی ہے۔ کہو تواسے بلالوں۔وہ یہیں رہےگی اور راج کماریوں کو بنائی سلائی سکھلایا کرےگی۔‘‘
ایک سہیلی کچھ سوچ کر بولی۔’’اس با ت کا کیا بھروسہ کہ سلائی بنائی کے کام میں اکیلی پھرکی ہی سب دیویوں سے زیادہ ہوشیار ہے۔ میری بات مانئے ایک جلسہ کر ڈالئے۔ جس میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سب دیویاں آئیں اور اپنا اپنا ہنر دکھائیں۔ جوسب سے بازی لے جائے وہی پہلا انعام پائے اور ہماری راجکماری کو بھی ہنر سکھائے۔‘‘
رانی کو یہ صلاح بہت پسندآئی۔ اس نے فوراً جلسہ بلانے کافیصلہ کر لیا اور اسی دن سارے سورگ میں منادی کرا دی۔ ٹھیک وقت پر جلسے میں سلائی بنائی کا کام جاننے والی سیکڑوں دیویاں آپہنچیں اور لگیں اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھانے۔ آخر پھر کی بازی لے گئی۔ رانی نے سہیلیوں کی صلاح سے اسے ہی پہلا انعام دیا۔ پھر اس سے کہا۔۔۔’’بس اب تمہیں یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں۔ آج سے تم میری سہیلی ہوئیں۔ مزے سے یہیں رہو اور راجکماری کو بنائی سلائی سکھایا کرو، سمجھیں؟ ‘‘
اس طرح پھرکی کی قسمت جاگ اٹھی۔ وہ رانی پاس رہنے لگی۔را جکماریاں ہر روز تیلیاں ،سوت، کپڑا، قینچی، سوئی دھاگا وغیرہ لے کر اس کے پاس جابیٹھتیں اور وہ انہیں بڑی محنت سے سلائی بنائی کا کام سکھایا کرتی۔ رانی اس کا کام دیکھتی تو بہت خوش ہوتی اور اسے ہمیشہ انعامات سے نوازا کرتی۔
رفتہ رفتہ پھرکی مالا مال ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی۔’’رانی کی مہربانی ہے ہی۔ مال کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ سلائی بنائی کا کام بھی میں سب سے اچھا جانتی ہوں۔ اب سورگ میں ایسی کون سی دیوی ہے جو میرا مقابلہ کر سکے۔ ‘‘بس اس کا غرور جاگ اٹھا اور پھرکی کاسرپھر گیا۔ وہ اب اور تو اور رانی کی سہیلیوں سے بھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ پھرکی کا یہ سلوک رانی کی سہیلیوں کوبہت ناگوار گزرا۔ ایک دن انہوں نے رانی سے شکایت کی۔ ’’پھرکی کو تو آپ نے خوب سر چڑھایا ہے۔ اب تو وہ کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتی۔ جب دیکھو غرور سے منہ پھلائے رہتی ہے۔ آپ ہی بتائیں۔ وہ اب ہمارے سورگ میں کس طرح رہ سکتی ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی رانی آگ بگولا ہو گئی۔ بولی۔ ’’ایسا! کہتی کیاہو؟ پھرکی غرور کرنے لگی ہے۔ پھرتووہ دیوی ہی نہیں رہی اور جو دیوی نہیں ہے وہ سورگ میں کب رہ سکتی ہے۔ میں ابھی اسے سزادوں گی۔ ذرا اسے پکڑ تو لاؤ میرے سامنے۔‘‘
فورا دو تین دیویاں دوڑی دوڑی گئیں اور پھرکی کو پکڑلائیں۔ رانی نے اس پرغصے کی نگاہ ڈالی اور کہا۔ ’’کیوں ری پھرکی۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ تو غرور کرنے لگی ہے؟ جانتی ہے غرورکرنے والے کو کیا سزا ملتی ہے؟ غرو رکرنے والا فورا سورگ سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور تو اور غرور کرنے پر تو میں بھی سورگ میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں کا قانون یہی ہے۔‘‘
پھرکی سہم کربولی ’’اب توغلطی ہو گئی۔ شریمتی جی! بس اس بارمجھے معاف کر دیجئے۔ پھرکبھی ایسی غلطی کروں توآپ کی جوتی اور میرا سر۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’تیرے لئے قانون نہیں توڑا جا سکتا۔ تجھے ضرور سزا ملے گی اور سورگ چھوڑکر زمین پر جانا ہی پڑےگا۔ ہاں میں اتنی مہربانی کر سکتی ہوں کہ تو جو شکل چاہے اسی شکل میں تجھے زمین پر بھیج دوں۔ بول تیری خواہش وہاں کس شکل میں جانے کی ہے؟‘‘ اسی وقت وہاں اچانک ایک فقیر آ پہنچا۔ وہ کپڑوں کی بجائے چغہ پہنے ہوئے تھا۔ اسے دیکھ کرسب دیویوں کو بہت تعجب ہوا رانی نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ صورت توآپ نے بہت عجیب بنا رکھی ہے ۔ہم نے تو آج تک ایسی عجیب وغریب صورت دیکھی ہی نہیں۔‘‘
فقیر نے جواب دیا۔’’میں ایک معولی انسان ہوں۔ زمین کا رہنے والا ہوں۔‘‘
رانی نے کہا ۔’’اچھا آپ انسان ہیں۔ زمین کے رہنے والے ہیں۔ انسان غرور کے پتلے ہوتے ہیں۔ وہ کبھی سورگ میں نہیں آسکتے۔ بھلا آپ کس طرح یہاں آ پہنچے۔‘‘
فقیر بولا۔’’میں نے غرور چھوڑکر بہت دنو ں تک تپ کیاہے۔اپنی ساری زندگی اپنے ہم وطنوں کی خدمت ہی میں بسرکی ہے۔ اسی لئے میں یہاں آ سکا ہوں۔‘‘
رانی نے خوش ہوکر کہا۔’’پھر تو آپ بھلے آدمی ہیں۔ آپ سے مل کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتا مل کہئے۔‘‘
فقیر بولا۔’’دیوی زمین پر رہنے والے انسان بہت دکھی ہیں۔ کپڑے پہننا بھی نہیں جانتے۔ وہ بے چارے اپنے جسم پر پتے لپیٹ لپیٹ کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ مہربانی کرکے کوئی ایسی چیز دیجئے جس کے ذریعے سے وہ سوت کات سکیں۔ روئی تو زمین پر بہت ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں نے اس کاسوت نکال لیا وہاں کپڑے تیارہوئے ہی سمجھئے‘‘
رانی نے کہا ۔’’اچھا اچھا آپ تشریف تورکھئے۔بھگوان نے چاہا تو میں ابھی آپ کی خواہش پوری کئے دیتی ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے پھرکی سے پھر وہی سوال کیا۔’’ہاں پھر تو کس شکل میں زمین پر جانا چاہتی ہے؟‘‘
پھرکی نے آنکھوں میں آنسو بھر کرجوا ب دیا۔’’شریمتی جی! میں تو وہاں کسی بھی شکل میں نہیں جانا چاہتی۔ اگرآپ مجھے وہاں بھیجنا ہی چاہتی ہیں تو ایسی شکل میں بھیجئے۔جس سے میں سب انسانوں کی خدمت کر سکوں ،ان کا دل بہلاسکوں اور ان سے عزت بھی پاسکوں۔‘‘
رانی مسکراکر بولی۔’’میں مانتی ہوں پھرکی توسچ مچ بہت ہوشیار ہے۔ تونے ایک ساتھ تین ایسی بڑی بڑی باتیں مانگی ہیں جن سے تو زمین پر بھی ہمیشہ دیوی بن کر رہےگی خیر کوئی بات نہیں۔ میں تجھے ابھی ایسی شکل دیتی ہوں جس سے تیری خواہش پوری ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہےگی۔‘‘یہ کہہ کر رانی نے چلومیں تھوڑا سا پانی لیا اور کچھ منتر پڑھ کر پھرکی پرچھڑک دیا۔ پھر کیا تھا۔ پھرکی فوراً تکلی بن کر کھٹ سے گر پڑی۔ رانی نے جھپٹ کرو ہ تکلی اٹھالی اور فقیر کودے دی۔ فقیر نے تکلی لیتے ہوئے پوچھا- ’’اس کا کیا ہوگا دیوی؟ یہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔‘‘
رانی نے جواب دیا۔ ’’چیز چھوٹی تو ضرور ہے۔ لیکن اس سے لوگوں کا بہت بڑا کام نکلے گا۔ اس کے ذریعے سے ان کوسوت ملےگا جس سے کپڑے بنے جائیں گے۔ بچوں کو یہ کھلونے کاکام دےگی اورفرصت کے وقت سیانوں کادل بہلایا کرےگی۔ وہ چاہیں گے تو آپس میں کھیلتے کھیلتے یاگپ شپ کرتے ہوئے بھی اس کے ذریعے سوت نکالتے رہیں گے، ابھی لے جائیے۔۔۔‘‘
کہتے ہیں اسی تکلی سے انسان نے کاتنا سیکھا اور تکلی کی ترقی کے ساتھ ہی تہذیب کی ترقی ہوئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.