Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گفٹ

MORE BYمحمد اسد اللہ

    بارش کی پہلی پھوار کے ساتھ ہی سارا ماحول بدل گیا تھا۔ کل سے اسکول کھل جائیں گے اس احساس سے گھر کے تمام بچوں میں ایک عجیب سی امنگ پیدا کر دی تھی۔ بازاروں میں ہر طرف خریداروں کی چہل پہل تھی جن میں اکثر بچے اور ان کے والدین تھے۔ سب کتابوں اور یونیفارم کی خریداری میں مصروف تھے۔

    شگفتہ شام ڈھلے شہر کے سپر مارکیٹ سے اسکول کے لئے ضروری چیزیں خرید کر اپنے والد کے ساتھ لوٹی تو اسے دیکھتے ہی اس کا چھوٹا بھائی مزمل دوڑ پڑا اور اس کے لئے خریدی گئی چیزوں سے بھرا بیگ دیکھ کر خوش ہو گیا۔ اس نے تمام کتابیں کاپیاں اور یونیفارم دیکھ کر اطمینان کر لیا۔ جب اس کی نظر شگفتہ کے بیگ پر پڑی تو اسے فوراً محسوس ہوا کہ اس کا بیگ باجی کے بیگ سے چھوٹا ہے۔ شگفتہ کو اس نے یہ بات بتائی تو وہ اسے سمجھانے لگی کہ میری کتابیں اور بیاضیں بھی تو تم سے زیادہ ہیں۔ تمہارا بیگ چھوٹا ضرور ہے پھر بھی میرے بیگ سے زیادہ مہنگا اور خوبصورت بھی تو ہے۔ یہ سن کر مزمل خاموش ہو گیا۔

    شگفتہ نے جب اپنے بیگ کا جائز ولیا تو سر پر ہاتھ مار کر بولی: ’افوہ! خاص چیز تو رہ ہی گئی، کمپاس بکس چھوٹ گیا نا!‘

    ’کیا دکان پر رہ گیا؟‘

    ’نہیں، مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ اسی دوران مزمل نے اپنا بیگ کھولا تو اچھل پڑا ’ارے واہ کمپاس بکس‘

    ’یہ تمہارے بیگ میں کیسے آگیا، مگر ہم نے یہ خریدا تو نہیں تھا۔‘ شگفتہ کچھ سوچتی ہوئی ’بولی اچھا،۔۔۔ یہ گفٹ ہے جہاں سے یہ خریدا گیا ہے، اس دکاندار نے کہا تو تھا کہ اس کے ساتھ اس کے اندر کوئی گفٹ بھی ہو گا۔ ہم وہاں دیکھنا بھول گئے تھے۔۔۔۔ مگر یہ تمہارے کسی کام کا نہیں۔۔۔ مزّمل یہ تم مجھے دے دو۔‘

    نہیں یہ میرے بیگ میں نکلا ہے میرا ہے، میں کیوں دوں؟ مزمل اڑ گیا اور اسی بات پر ان دونوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی اور نوبت مار پیٹ تک پہنچ گئی۔

    امی نے دونوں کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر مزّمل ماننے کو تیار نہ تھا۔

    تھک ہار کرامی نے شگفتہ سے کہا، ’بیٹی! تم بڑی ہو سمجھدار ہو، یہ تو نالائق ہے۔ تم ہی مان جاؤ، کل بازار سے نیا کمپاس بکس خرید لینا۔

    بات خریدنے کی نہیں ہے امی جب گھر میں ایک چیز موجود ہے اور وہ کسی کے کسی کام کی نہیں، تو دوسری خریدنا کیا فضول خرچی نہیں ہے۔‘

    ’وہ تو ہے مگر اس لڑکے کی بے عقلی کا علاج بھی تو نہیں۔‘ یہ سن کر شگفتہ خاموش ہوگئی۔

    رات گئے جب سب سونے کے لئے بستر پر لیٹے تو امی نے انہیں ایک کہانی سنائی۔

    ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس میں دولوگ بہت مشہور تھے۔ عبدالرحمن اور شیخ رحیم۔ دونوں بڑے نیک اور پار سا تھے۔ سب ان کی عزت کیا کرتے تھے۔ ان دونوں کا زیادہ تر وقت اپنے گھر اور کاروبار کے علاوہ مسجد میں گزرتا تھا۔ ایک مرتبہ عبدالرحمن کو کسی کام کے لئے روپیوں کی ضرورت پیش آئی اور وہ رقم جٹانے کے لئے اسے اپنا کھیت بیچنا پڑا۔ شیخ رحیم مالی اعتبار سے آسودہ حال تھا۔ اس نے وہ کھیت مناسب داموں میں خرید لیا۔ چند دنوں بعد جب شیخ رحیم نے سوچا اس کھیت میں پیڑ لگانے چاہئے۔ جب اس نے وہاں موجود کنویں کو دیکھا تو وہ بالکل سوکھا ہوا تھا۔ شیخ رحیم نے مزدوروں کو بلوایا اور ایک نیا کنواں کھودنے کا حکم دیا۔ کنواں کھودنے کا کام جاری تھا کہ ایک دن مزدوروں نے عبدالرحیم کو بتایا زمین میں کوئی سخت چیز نکل آئی ہے اسے کھود کر باہر نکالا گیا تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ ایک بہت بڑا صندوق تھا جو سونے کے زیورات سے بھرا ہوا تھا۔ خزانہ نکلنے پر مزدوروں نے عبدالرحیم کو مبارک باد دی اور کہا ’اس میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہئے۔‘

    عبدالرحیم نے اس صندوق کو دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ بہت دیر تک سوچتا رہا اور پھر کہا۔ یہ خزانہ ہمارا نہیں ہے، ہم نے عبدالرحمن سے صرف زمین خریدی ہے۔ یہ کھیت اس کا تھا اس لیے یہ صندوق بھی اسی کا ہے ہمیں اسے لوٹا دینا چاہیے۔

    اس نے اپنے غلام کو عبدالرحمن کے گھر بھیج کر اسے کھیت میں بلوایا اور پورا ماجرا کہہ سنایا، پھر صندوق اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا بھائی یہ تمہاری امانت ہے، لے جاؤ۔ عبدالرحمن نے کہا، ’میں نے تمہیں کھیت بیچ دیا تھا اس کے بعد اس کھیت میں موجود ہر چیز تمہاری ہے۔ اس صندوق پر میرا کوئی حق نہیں۔‘

    دونوں وہ صندوق ایک دوسرے کے حوالے کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب بات نہ بنی تو معاملہ اس بستی کے قاضی کے پاس گیا ۔ قاضی صاحب بھی اس عجیب و غریب مقدمہ کو سن کر حیران تھے اور خوش بھی ہوئے یہ سوچ کر کہ ان کی بستی میں ایسے نیک اور بے غرض انسان موجود ہیں جن کے دل میں دولت کا ذرا بھی لالچ نہیں۔ قاضی صاحب نے بہت غور و خوص کے بعد عبد الرحمن سے پوچھا تمہارے کتنے بچے ہیں؟

    ’میری ایک ہی لڑکی ہے۔‘

    کیا عمر ہے اس کی؟

    یہی کوئی بیس سال۔‘

    ’کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟‘

    ’نہیں میں اس کے لئے مناسب رشتے کی تلاش میں ہوں، میں نے یہ کھیت اس لئے بیچا تھا، تا کہ اس کی شادی کا سامان کر سکوں۔‘

    پھر قاضی صاحب نے عبدالرحیم سے سوال کیا۔ آپ کی کتنی اولادیں ہیں؟

    عبدالرحیم نے جواب دیا، ’میرا ایک بیٹا ہے،

    کیا عمر ہے اس کی، کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟‘

    ’جی نہیں یہی کوئی پچیس سال کا ہوگا، ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے۔‘

    ’پھر تو معاملہ بہت آسان ہے، عبدالرحمن صاحب آپ اپنی بیٹی کا نکاح عبدالرحیم صاحب کے بیٹے سے کر دیں اور یہ خزانہ ان دونوں کو دے دیں۔‘ آپ دونوں کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور یہ دولت بھی آپ دونوں ہی کے گھر میں رہے گی۔

    عبدالرحمن نے اسے قبول کر لیا۔

    قاضی صاحب کے اس فیصلے کو سن کر بستی کے لوگ ایک بار پھر ان کی عقلمندی کے قائل ہو گئے۔

    شگفتہ اور مزمل کو یہ کہانی بہت پسند آئی۔ اسی کہانی کے بارے میں سوچتے سوچتے دونوں نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔

    اگلی صبح جب شگفتہ نے اسکول جانے سے پہلے اپنا بیگ نکالا اور کتابیں رکھنے لگی تو اس نے دیکھا۔ اس میں کمپاس بکس رکھا ہوا تھا۔ مزمل اسی کمرے میں اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ شگفتہ اس کے لئے رنگ برنگے پلاسٹک کے بلا کس کا سیٹ لائی تھی، انھیں جوڑ کر وہ ایک گھر بنارہا تھا۔

    ’مزمل! یہ کمپاس بکس یہاں تم نے رکھا ہے؟‘ شگفتہ نے اس پوچھا

    ’ہاں‘۔۔۔۔ گفٹ ہے۔ آپ کے لئے‘

    ’مزّمل کے چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ تھی۔

    شگفتہ نے آگے بڑھ کر اسے ’میرا پیارا بھائی‘ کہہ کر گلے لگا لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے