میرے استاد میرے محسن
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری ان کا ذکر کروں گا۔
جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آ جاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آ جاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
پہلی جماعت میں پہنچا تو مس سردار ہماری استانی تھیں، لیکن وہ جلد ہی چلی گئیں اور ان کی جگہ مس نسیم آئیں جو استانی کم اور جلاد زیادہ تھیں۔ بچوں کی اس طرح دھنائی کرتی تھیں جیسے دھنیا روئی دھنتا ہے۔ ایسی سخت مار پیٹ کرتی تھیں کہ انسان کو پرھائی سے، اسکول سے اور کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہو جائے۔ جو استاد اور استانیاں یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو مار پیٹ کر نہ پڑھایا کریں۔ بہت ضروری ہو تو ڈانٹ ڈپٹ کر لیا کریں۔ اس تحریر کو پڑھنے والے جو بچے اور بچیاں بڑے ہو کر استاد اور استانیاں بنیں وہ بھی یاد رکھیں کہ مار پیٹ سے بچے پڑھتے نہیں بلکہ پرھائی سے بھاگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم سے بیزار کرنے میں پٹائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک آدھ ہلکا پھلکا تھپڑ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھے بچوں کو اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے بعد کی جماعتوں میں پڑھانے والے جو استاد مجھے یاد آتے ہیں، ان میں سے ایک ضیا صاحب ہیں جو چھٹی جماعت میں ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ اگرچہ ضیا صاحب ہر وقت اپنے ساتھ ایک لچکیلا بیدر رکھتے تھے لیکن اس کا استعمال کم ہی کرتے تھے۔ انہوں نے میری اردو کا تلفظ صحیح کرنے میں بہت مدد دی۔ انہوں نے اردو سکھاتے اور پرھتاے ہوئے کئی کام کی باتیں بتائیں جن سے میں نے بعد میں بھی فائدہ اٹھایا۔ ضیا صاحب ہوم ورک کے طور پر ایک صفحہ روزانہ خوش خط لکھنے کو کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھو، عبارت کہیں سے بھی اتارو، چاہے کسی اخبار سے یا رسالے سے یا کتاب سے اور چاہو تو کوئی کہانی ہی لکھ لاؤ مگر لکھو ضرور اور لکھو بھی صاف صاف اور خوبصورت۔ میں کتاب سے کوئی عبارت اتارنے کے بجائے اکثر دل سے قصے کہانیاں بناکر لکھ کر لے جایا کرتا تھا۔ شاید یہیں سے مجھے کہانیاں لکھنے کا چسکا پڑ گیا۔ کہانیاں پڑھنے کی لت تو پہلے سے تھی ہی۔ ضیا صاحب کے لئے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کا سکھایا پڑھایا بہت کام آیا۔
ساتویں جماعت میں جناب طیب عباسی ملے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بہت مذہبی آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سنایا کرتے تھے۔ بچوں کی شاذ و نادر ہی پٹائی کی ہوگی۔ کلاس بہت شور مچاتی تو جھوٹ موٹ غصے سے کہتے: ’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘‘ اور بچے اتنے شریر تھے کہ ان کا نرم سلوک دیکھ کر اور شیر ہو جاتے اور انہیں بار بار ’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘‘ کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب کا محبت بھرا برتاؤ اب بھی بہت یاد آتا ہے۔
آٹھویں جماعت میں میں نے باغ ہالار اسکول چھوڑ کر سیفیہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں جس استاد نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا وہ سید محمد طاہر صاحت تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ نہ صرف ان کے پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا بلکہ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ قہقہہ بہت بلند آواز میں لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے۔ حتی کہ اسکول کی راہ داریوں میں، اسٹاف روم میں یا کسی جماعت کے کمرے میں ہوتے تو بھی ان کے قہقے سے پتا چل جاتا تھا کہ طاہر صاحب یہیں کہیں ہیں۔ ان کی دلچسپ باتوں پر پوری کلاس دل کھول کر قہقہے لگایا کرتی تھی۔ چنانچہ ہارا اردو کا پریڈ سب سے مزیدار ہوتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ پرھائی ہو رہی ہے، لیکن پڑھائی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی تھی۔ طاہر صاف کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقعے کے لحاظ سے غضب کا شعر پڑھتے تھے۔ اس سے میرا شعر و شاعری کا شوق بہت بڑھ گیا۔ وہ جماعت میں طالب علموں سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ اگر کوئی لڑکا اچھا شعر پڑھتا تو بہت داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے کتابیں لے کر بڑے بڑے شاعر، مثلاً غالبؔ، اقبالؔ اور میر وغیرہ کے بےشمار شعر ایک کاپی میں لکھ لئے اور یاد کر لئے، بلکہ بہت سے شعر تو لکھنے کے دوران ہی یاد ہو گئے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ طاہر صاحب ایک شعر سناتے اور ایک میں سناتا اور پوری کلاس ’’واہ وا‘‘ کر کے داد کے ڈونگرے برساتی۔ طاہر صاحب نے ہمیں تین سال تک یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں میں اردو پرھائی اور حق یہ ہے کہ اردو پرھانے کا حق ادا کر دیا۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے اندر انہوں نے اردو زبان اور اردو شعر و ادب کا ایک ایسا ذوق اور مطالعے کا ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے آگے چل کر میری پڑھائی اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
انہیں تین سالوں میں شبیر صاحب سے بھی ربط ضبط رہا۔ اگرچہ سائنس کے آدمی تھے اور الجبرا اور طبیعات یعنی فزکس پڑھاتے تھے، لیکن شاعری سے اور ادب سے انہیں بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد احمد صاحب تھے۔ وہ خود شاعر تھے اور کچھ دنوں تک میں ان سے (شاعری پر) اصلاح بھی لیتا رہا۔
تیسری چوتھی جماعت میں میں نے رسالے، کہانیاں اور ناول اس طرح چاٹنا شروع کر دیئے جیسے وہ قلفی یا کھٹ مٹھا چورن ہو۔ اسی دور میں میں نے ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا اور یہ میرے من کو ایسا بھایا کہ آج تک اسے نہیں چھور سکا بلکہ اب تو میرا بیٹا سجاد بھی اسے پڑھتا ہے۔ ہر ماہ جب اخبار والا ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ دے جاتا ہے تو دونوں باپ بیٹے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اسے پہلے میں پرھ لوں اور اب تو سجاد کی امی جان محترمہ بھی اس دوڑ میں شریک ہو گئی ہیں۔
ہمدرد نونہال سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے اردو سیکھی (اردو میری مادری زبان نہیں ہے) ہمدرد نونہال سے میں نے کہانیاں اور مضمون لکھنا سیکھا۔ بےشمار معلومات اور عقل کی باتیناس نے مجھے سکھائیں۔ درحقیقت ہمدرد نونہال بھی میرے استادوں میں شامل ہے۔ یہ میرا محسن ہے۔ ( اور یہ بات میں جناب حکیم محمد سعید صاحب یا جناب مسعود احمد برکاتی صاحب کو خوش کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ یہ سچی بات ہے) اپنے استادوں کے ساتھ نونہال کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک سے ایک نہایت عمدہ رسالہ ان کی صحیح تربیت اور رہ نمائی کے لئے نکلتا ہے۔
بھئی اپنے استادوں کا یہ ذکر کچھ طویل ہوتا جا رہا ہے، اس لئے میں اسے ختم کرتا ہوں لیکن ٹھہریے! فوہ بھئی حد ہو گئی۔ استادوں کا یہ ذکر الیاس صاحب کے بغیر بھلا کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے ہمیں سال ڈیڑھ سال انگریزی پڑھائی۔ آٹھویں میں اور کچھ عرصے نویں میں۔ انگریزی پڑھائی کیا تھی بس گھول کر پلا دی تھی۔ انگریزی گرامی کی بعض چیزیں انہوں نے جس طرح ہنسا ہنساکر اور مذاق ہی مذاق میں پڑھا دیں وہ اتنے کام کی نکلیں کہ وہیں سے صحیح معنوں میں انگریزی ہماری سمجھ میں آنے لگی اور یہ بنیادی باتیں شاید کوئی اور اس طرح نہ بتا پائے۔ اللہ جانے الیاس صاحب اب کہاں ہیں؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور دنیاو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔ انہوں نے اور طاہر صاحب نے ہمیں نہایت عمدہ طریقے پر انگریزی اور اردو پرھا کر بہت بڑا احسان کیا۔
بلکہ درحقیقت میرے تمام استاد میرے محسن ہیں، چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونیورسٹی کے۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت عقل اور تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.