Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خدا کے بندے

صدیق عالم

خدا کے بندے

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ انسانی قدروں اور ان کے تضادات کی کہانی ہے۔ مرلی نسکر کو پڑھنے کا شوق کولکاتا کھینچ لایا تھا۔ مگر اس کے پاس ہاسٹل کے اخراجات کے لئے پیسے تھے نہ کتاب اور کاپیوں کے لئے۔ شاید وہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح آوارہ گردی کرتے کرتے ایک پتلی کاپی تھامے بی اے پاس کر لیتا اور کہیں کلرک یا ٹیچر کا عہدہ سنبھال کر ایک بکواس اور بزدلانہ زندگی گذارتا۔ مگر سونا گاچھی کے دلال گرجا شنکر نے اسے سہارا دیا اور اس گھسی پٹی زندگی سے نجات دلائی۔ گرجا شنکر سے اس کی ملاقا ت لوکل ٹرین میں ہوئی تھی جہاں سے وہ اسے اپنے ساتھ سونا گاچھی لے آیا اور مہندی لکشمی کے کمرے میں اسکا ٹھکانہ طے کردیا۔

    دس کا گجر بجتے ہی آتمائیں برجوں، گنبدوں اور کنگوروں سے اتر آتیں۔ وہ غیر مستعمل گرجاگھر کے ہر تاریک اور نیم تاریک گوشے پر قبضہ جما لیتیں۔

    ’’انسانوں کا کیا حال ہے؟‘‘ وہ آپس میں دریافت کرتیں۔ بھوت اگر بدصورت ہوتے تو چڑیلوں کے بال ان کے کولھوں پر گرے ہوئے ہوتے۔ انہیں آتماؤں کا یہ تجسس بڑا ہی مضحکہ خیز نظر آتا۔

    ’’مرنے کے بعد بھی لوگ ایک دوسرے کی غیبت سے باز نہیں آتے۔‘‘ وہ آپس میں سرگوشی کرتیں۔ ان کے قہقہوں سے پرانی دیواریں اور ستون ہلنے لگتے۔ ’’انسانوں سے کسی دوسری چیز کی امید بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟‘‘

    چڑیلیں پورے معاملے سے بیزار لگتیں۔ انہوں نے دنیا کو ہر زاویے سے دیکھا تھا، پرکھا تھا۔ انہیں زندہ انسانوں کے کتنے ہی ٹونوں ٹوٹکوں سے گذرنا پڑتا، انکا ستم سہنا پڑتا۔ اوپر سے انسان کا تعصب، بےجا خوف اور بےرحمی الگ۔ چڑیلیں اکثر اپنے لٹکتے پستانوں کو مسلتی مروڑتی رہتیں۔ وہ رونے کی کوشش میں دانت کچکچاتیں۔ مگر آنسو پر تو بہر حال انسانوں کا قبضہ تھا۔ انسان جس نے اپنی آہوں سے آسمان کو سیاہ کر رکھا تھا۔ انسان جس نے اپنے آنسوؤں سے سمندر کو نمکین بنا ڈالا تھا۔

    مگر یہ کہانی اس کے بعد سے بھی شروع کی جا سکتی ہے۔

    جس دن مرلی نسکر پوری طرح پاگل ہوا اس کے گھر کے پچھواڑے ایک کتیا نے بچے دیے۔ اس کتیا کو ایک بار مرلی نسکر نے اپنے تصرف میں لانے کی کوشش کی تھی۔ مرلی کے بال لانبے تھے اور گھر والے اس کی موت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ دراصل مرلی نسکر کا سب سے بڑا عیب یہ تھا کہ آپ اس سے برے سے برے کام کی امید کر سکتے تھے۔ صرف تھوزی سی رقم کے عوض اس نے اپنے جسم کو عام گذرگاہ بنا ڈالا تھا۔ جیب کترے اس کے پاس پیسے رکھتے اور طوائفیں اسے ساتھ لے کر ڈاکٹر وں کے پاس جاتیں۔

    مگر کوئی اس کے دل سے پوچھے! وہ ان جراثیم برداروں کے شوہر کی اداکاری کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کوئی صحیح معنوں میں اس کا بچہ اپنے پیٹ میں لے کر اسے گرانے ڈاکٹر کے پاس جائے۔ ڈاکٹر جو بیماری کا آلہ گردن سے لٹکائے اپنی پہلی فرصت میں عورتوں کو میز پر لیٹ جانے کی ہدایت دے ڈالتے۔ عورتیں جو پیشے سے تو طوائف تھیں مگر جنہیں مردوں کی انگلیوں سے ٹٹولے جانا اچھا نہ لگتا۔ مگر خدا کے بعد اگر آپ کی آتما پر کسی کا پورا حق بنتاہے تو وہ ڈاکٹروں کا ہے جس کے بعد آپ کا جسم پوری طرح آپ کا نہیں ہوتا۔ مرلی نسکر کو پڑھنے کا شوق کولکاتا کھینچ لایا تھا۔ اس کے ماں باپ دونوں سوتیلے تھے اور کسی نہ کسی طرح مرلی نسکر جیسے مرض سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مگر کولکاتا آکر اس نے اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگائی کہ زندگی میں پڑھائی لکھائی ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اس کے پاس نہ ہاسٹل کے اخراجات کے لئے پیسے تھے نہ کتاب اور کاپیوں کے لئے۔ شاید وہ بھی دوسرے لڑکوں کی طرح آوارہ گردی کرتے کرتے ایک پتلی کاپی تھامے بی اے پاس کر لیتا اور کہیں کلرک یا ٹیچر کا عہدہ سنبھال کر ایک بکواس اور بزدلانہ زندگی گذارتا۔ مگر سونا گاچھی کے دلال گرجا شنکر نے اسے سنبھال لیا اور اس گھسی پٹی زندگی سے نجات دلائی۔ گرجا شنکر سے اس کی ملاقا ت لوکل ٹرین کے اندر ہوئی تھی جہاں سے وہ اسے اپنے ساتھ سونا گاچھی لے آیا اور مہندی لکشمی کے کمرے میں اس کا ٹھکانہ طے کر دیا۔ ٹھیک اس کے ایک ہفتے بعد گرجا شنکر کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔ گرجا شنکر تھانے کے انچارج گیا پرساد کے لئے کوٹھوں سے ہفتہ وصولتا تھا۔

    یہ بات مہندی لکشمی نے مرلی نسکر کو بتائی۔ مہندی لکشمی کی عمر ڈھلنے لگی تھی اسی لئے وہ اب گاہک شاذر و نادر ہی رجھا پاتی۔ پھر بھی سونا گاچھی کے پورے امام بخش لین میں وہی سب سے مقبول حرافہ تھی جو بیک وقت گاہکوں کے ساتھ ’بیٹھ‘ بھی جاتی اور ماسی کا فرض بھی نبھاتی۔ اپنا پاپ کم کرنے کے لئے اس نے اپنی چاروں دیواروں کو دیوی دیوتاؤں کے طغروں سے ڈھانک رکھا تھا۔ مرلی نسکر جیسے پڑھے لکھے لڑکوں کی مدد کرنا، یہ اس کی دوسری ہابی تھی۔ اپنے کمرے میں چادر لٹکا کر مہندی لکشمی نے اسے دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنے حصے میں مرلی نسکر نطشہ اور آچاریہ رجنیش کی کتابیں پڑھا کرتا جنہیں وہ گول پارک کی ایک لائبریری سے چرا کر لاتا اور پڑھنے کے بعد ایک سندھی کوبیچ دیا کرتا جسکی فری اسکول اسٹریٹ میں پرانی کتاب کی دکان تھی۔ دوسرے حصے میں مہندی لکشمی اپنا دھندہ چلاتی، کھانا پکاتی، رامائن کا پاٹھ کرتی یا اپنے فرضی شوہر نول پروہت کے لئے مانگ میں سیندور بھرا کرتی۔

    ’’نول پروہت؟‘‘ مرلی نسکر پوچھتا۔ ’’وہ زندہ ہے تو اسے تمہارے ساتھ ہونا چاہئے۔‘‘

    ’’تم کیا سمجھتے ہو؟ تم نے دو چار اکھچرکیا پڑھ لئے پورے گیانی ہوگئے ہو کیا؟‘‘ مہندی لکشمی کہتی۔ ’’اپنی بات واپس لے مرلی۔ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ پورے مندر ہاٹ میں اس کے جیسا بڑھئی کوئی دوسرا نہیں۔‘‘

    ’’عجیب بات ہے۔‘‘ مرلی نسکر کہتا۔ نطشہ کو پڑھ کر اس کے اندر جو جوش بیدار ہوتا وہ فوراً مر جاتا۔ وہ سر کھجاتے ہوئے کچھ سوچنے لگتا اور یہ سب کچھ اس وقت تک چلتا جب تک مہندی لکشمی کے دھندے کا وقت نہ آجاتا۔ اپنے گاہک کے ساتھ مہندی جب کمرے کے دوسرے حصے میں داخل ہوتی تو ڈوری سے لٹکتی چادر کا کونا کھسکا کر اپنے پان خوردہ دانت چمکا کر ہنستی۔

    ’’بہت آنکھ خراب کرلی تونے مرلی۔ اب کچھ ٹی وی بھی دیکھ لے۔‘‘ اور مرلی نسکراپنی کتابیں سمیٹ کر کمرے سے باہر نکل جاتا۔ مگر کبھی کبھار وہ بھی سفید و سیاہ ٹی وی سے جا چپکتا جو گلی کے کونے میں پنواڑی کی دکان میں چلتی رہتی۔ یہاں بوڑی اور کم عمر طوائفوں جنہوں نے اپنا پیشہ ابھی شروع نہیں کیا تھا، ناکام دلالوں اور منتظر گاہکوں کی عجیب بھیڑ لگتی۔ یہاں گلیوں کی سرنگوں سے گذرتی ہوئی ٹھنڈی ہوا آتی۔ لوگ دیواروں پر تھوکتے یا پان کی پچکاریاں مارتے۔ اکثر ایک آدھ سیاسی لیڈر کا بھاشن بھی ہو جاتا۔ یعنی یہاں پر بھی زندگی کچھ اسی ڈھنگ سے چل رہی تھی جس ڈھنگ سے ایک عام مصروف گذرگاہ پر چلا کرتی ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ شریف محلوں میں لوگ گناہوں کے خوف سے سہمے دبے زندگی گذارا کرتے ہیں جبکہ یہاں انسان کا ضمیر پاک و صاف تھا۔ سب کچھ عیاں تھا اور طوائفیں اپنا دھندہ کسی دن مزدور کے انداز سے ہی چلاتیں اور دلالوں کے اپنے گھر سنسار تھے اور گاہکوں کو ایک مہذب دنیا میں واپس لوٹنا ہوتا۔

    صرف مرلی نسکر اس پورے منظر میں کہیں فٹ نہ ہوتا۔

    تو اس نے سریندر ناتھ کالج کی یونین کے دنگوں میں پناہ لی۔ اس نے مہاتما گاندھی روڈ پر سیاسی جھنڈا اپنایا اور ٹرا م کی پٹریوں کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر چھرے چمکائے، بم بنانے کے گر سیکھے اور کانگریس پارٹی کے ایک حمایتی غنڈے گوپال کے کان کاٹ کر اسے ’’کن کٹا گوپال‘‘ کی شہرت عطا کی اور جب فائنل امتحان شروع ہوا، اس نے مہندی لکشمی کے کمرے میں لمبی نیند کی عادت ڈال لی۔ اکثر مہندی جگہ نہ پاکر اس لے لپٹ کر سو جاتی۔ وہ خواب کی حالت میں مہندی لکشمی کو ڈھکیلتا رہتا۔ مگر گاہکوں سے بےرحمی کے ساتھ پسے جانے کے بعد مہندی کے اندر بیداری کی سکت کہاں تھی۔ وہ اس وقت تک نہ جاگتی جب تک کھڑکی سے دھوپ اتر کر اس کے چہرے کو توے کی طرح گرم نہ کر ڈالتی۔ جاگنے پر اسے مرلی نسکر پر ترس آتا۔ وہ اس کے لئے چائے بناتی، اسے ٹوتھ برش تھماتی اور اسے آڑے ہاتھوں لیتی۔

    ’’تو پڑھنے آیا ہے کہ کیا! میں سمجھی تھی میں پنیہ کما رہی ہوں۔ پنیہ میری جوتی۔ تو آخرکار بھڑوا ہی نکلےگا۔ مرلی چل بھاگ۔ جلدی سے پڑھ لکھ کر دور ہو۔ مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔‘‘

    ’’جیسے؟‘‘

    ’’تجھے اس سے مطلب؟ جا پڑھ لکھ کر سبھیہ سماج میں لوٹ جا۔ ڈھیر ساری لڑکیاں سیندور سجا کر تیرے بچے جننے کے لئے اتاولی بیٹھی ہیں۔‘‘

    مرلی نسکر کھکھلا کر ہنستا۔ چلو یہ بھی سہی، وہ سوچتا۔ جب یہ طوائفیں بچے جننے سے نہیں چوکتیں تو شریف گھرانے کی لڑکیاں کیوں پیچھے رہیں۔ شریف گھرانے، وہ دوبارہ کھکھلاکر ہنستا۔ طوائفیں بھی سیندور پہنتی ہیں، طغرے ٹانگتی ہیں، شوہر کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سبھیہ سماج میں جہاں بیویاں کماؤ ہوتی ہیں وہاں لوگ شوہر اور بیوی میں نہ جانے کیسے امتیاز کرتے ہوں گے؟

    مرلی نسکر مارکس کے بتائے گئے عورت مرد کے تعلقات میں استحصال کے پہلو سے بے چین تھا۔ وہ طوائفوں کو تو سمجھ سکتاتھا، مگر بیویاں؟ اسے ان پر ترس آتا۔ صبح سے آدھی رات تک کے کاموں کے لئے انہیں تو انکا ایک چوتھائی معاوضہ بھی نہیں ملتا، بلکہ اکثر دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے بھی صحیح ڈھنگ کے نہیں ہوتے۔ سوناگاچھی کی حرافائیں اکثر مردوں کو، جو جنسی عمل ختم کرنے کا نام نہ لیتے، یوں طعنہ دیتیں:

    ’’اپنی جورو سمجھا ہے کیا، سالا۔ چل ہٹ۔ دھندے کا ٹیم ہے۔‘‘

    مگر اپنی فرصت کے لمحوں میں، یا اس وقت جب وہ ذہنی طور پر ان غلیظ لوگوں کے بیچ نہ ہوتا، وہ سوچتا، ان سب سے باہر نکلنے کا کوئی تو راستہ ہوگا۔ راستے تو کئی تھے اور اسے روکنے والا بھی کوئی نہ تھا، مگر وہاں سے نکل جانے کے بعد کون سے دنیا تھی بھلا، سوائے اس سبھیہ دنیا کے جو اسے اور بھی اوٹ پٹانگ دکھائی دیتی۔ اس نے ایک دن اپنے اندر کولمبس کو جاگتا محسوس کیا۔ مگر اس نے دیکھاکہ اس سبھیہ دنیا کی شروعات دراصل ٹرام راستہ پہ کھڑے پولیس کے لوگوں سے ہوتی تھی جو کوٹھوں سے اپنے حصے کا ہفتہ وصولتے تھے، دلالوں کی دی ہوئی کھینی پھانکتے تھے اور طوائفوں سے گپیں لڑاتے تھے اور ان سے پرے دکاندار دکانوں میں بور سے بیٹھے تھے، وہ بزنس مین تھے جو اپنے کالے پیسوں کو سفید کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتے یا سرکاری آفس کے بابو تھے جو رشوت کے پیسوں سے پنپتے، گاڑیوں میں گھومتے، گھروں میں ایئرکنڈیشنز لگاتے اور اپنی بیویوں کی آنکھوں میں امیتابھ بچن تھے۔ یا پھر اسکول اور کالج تھے جو ان کے لئے اپنے معنی کھو چکے تھے۔

    وہ اصلی شہر کہیں تو ہوگا جس پر ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے، وہ دل ہی دل میں سوچتا۔ نہ جانے اس کے باشندے کیسے ہوں گے؟ ایک بات طے ہے، بڑا ہی دلچسپ ہوگا وہ اور وہ اس خواب میں زندہ تھا۔ لیکن آخر میں۔۔۔ سب قصے کہانیوں کی باتیں ہیں، وہ خود کو سمجھاتا۔ اچھا فر ض کر لو ہم نے اسے پا لیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں کیا ہم لوگ اس کے اندر دوسرا سونا گاچھی نہ اگا ڈالیں گے، کیا ٹھوس کاروباری لین دین وہاں نہ ہوگی جو ابھی ہے، کیا اس کے سیاست داں آج سے کچھ مختلف ہوں گے؟ کیا اس شہر کی تاریخ اس سے جد اہوگی جو ہم موٹی موٹی کتابوں میں بچا کر رکھتے ہیں۔

    ’’مرلی نسکر تو ہندو ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’جھوٹ، تیرے پاس قرآن ہے۔‘‘

    ’’بائبل بھی ہے، گیتا بھی ہے۔‘‘

    ’’چل پتلون اتارکر دکھا، آج فیصلہ ہو جانا چاہئے، مجھے لگتا ہے تو مسلمان ہے۔‘‘

    ’’اگر میں مسلمان نکلا تو اس سے نہ تیری دنیا بدل جائےگی نہ میری۔ مگر تیرا دھیان اس بات کی طرف کیوں گیا؟ ٹی وی میں خبریں بہت دیکھنے لگی ہے لکشمی۔ آج کل دھرم کے نام پر لوگ اپنی سیاست چمکانے میں خوب مصروف ہیں‘‘۔

    ’’تو ڈرتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کس سے؟‘‘

    ’’یہ پتہ ہوتا تو اس ڈر کو نہ سمجھ لیتا، اسے مار نہ ڈالتا؟‘‘

    ’’کسے مارڈالتا۔۔۔؟‘‘ مہندی لکشمی کا ذہن گڈمڈ ہو جاتا۔ مرلی نسکر مسکرا تا۔

    ’’مہندی، کتنے سارے دیوی دیوتاؤں کو تم نے دیواروں سے ٹانگ رکھا ہے۔ کوئی تمہارے بارے میں نہیں سوچتا؟‘‘

    ’’کیسے نہیں سوچتا؟ اس عمر میں اتنے سارے گاہک کیا آسمان سے ٹپک کر آتے ہیں؟ یہ تو انہیں دیوی دیوتاؤں کی کرپا ہے۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘ پھر مرلی ہار مان کر مسکراتا۔’’ہاں، سو تو ہے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘ مہندی لکشمی اپنی جیت سے سرشار چھت کی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھ جاتی۔

    ’’یہ میرے بچپن کی بات ہے۔۔۔‘‘ وہ جاری ہوجاتی۔ ’’ان دنوں سکہ ماسی کا دور دورہ تھا۔ میں لال فیتہ لگا کر اسکول جاتی۔ میرے جوبن کے ابھار سے پہلے ہی میرے دو عاشق پیدا ہو گئے، بلا اور تارا۔‘‘

    ’’بیچ میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تو بھی ایک ویشیا کی بیٹی تھی۔‘‘

    ’’وہ تو ہئی ہے۔ تو بلا اور تارا میرے دو عاشق تھے۔ بلا کو کتوں سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ گیلف اسٹریٹ سے کتے چرا کر لاتا اور مجھے تحفے میں دیتا۔ بڑے پیارے پیارے کتے ہوتے، گھنے بالوں والے، بٹنوں جیسی آنکھوں والے، کبھی کبھی بغیر دم کے، کبھی بالکل ہی چھوٹے چھوٹے پاؤں والے جیسے ان کے گھٹنوں کے نیچے کا حصہ جمین کے اندر ہو۔ تارا کم بولتا تھا۔ سکہ ماسی کا چھوڑا ہوا جاسوس تھا ۔ پولس کے لئے بھی مکھبری کرتا تھا۔ تو ایک دن بلا اور تارا میں استرا چل گیا۔ پھر دونوں جانے کہاں گائب ہوگئے۔‘‘

    ’’عجیب کہانی ہے تیری بھی مہندی۔ نہ سنو تو دل تجسس سے بےچین، سنو تو اس میں کوئی دم نہیں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’میرا مطلب ہے کہانی اچھی تھی۔ بس تو اس میں ذرا پہلے آ گئی لگتی ہے۔‘‘

    ’’چل جا مرلی۔ میری جندگی کہانیوں سے بھری ہے۔ تیری طرح نہیں کہ بس پستک ہی پستک۔ میں بتاؤں ۔ ایک بار ایک گجراتی سیٹھ مجھے ممبئی لے جانے کے لئے بے چین ہو اٹھا۔ میں اس وخت بہت کم سن تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ممبئی میں کیا ہے سیٹھ؟ اس نے کہا سمندر ہے۔ میں نے پوچھا سمندر کے علاوہ کیا ہے؟ بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ بڑی بڑی عمارتوں کے علاوہ کیا ہے؟ فلم سٹی ہے۔ تو میں نے پوچھا وہاں سونا گاچھی ہے ؟ اس نے کہااس سے بھی بڑی بڑی۔ مثلاً؟ میں پوچھ بیٹھی۔ محمد علی روڈ! تو وہاں سے کوئی مہندی لکشمی کو کیوں نہیں اٹھا لیتا بھڑوے؟ اس پر اس نے سکہ ماسی کو میرے خلاف اتنا بھڑکایا، اتنا بھڑکایا کہ مجھے کوٹھی چھوڑ نی پڑی۔ بعد میں سکہ ماسی کھود مجھے واپس لینے آئی۔ مگر تب تک میرے دن پھر چکے تھے۔‘‘

    زیادہ تر وقت مرلی نسکر چھت کی کمزور منڈیر پر جھکا ماؤتھ آرگن پر کوئی ہندی فلمی گیت مشق کیا کرتا۔ اسے کوئی گاہک مہندی لکشمی کے بستر پر چھوڑ گیا تھا۔ جب وہ اس کی مشق سے اکتا جاتا تو دور تک ان کھنڈر نما پرانی عمارتوں کے سلسلے کو تاکتا رہتا جن کی چھتوں میں طوائفیں نہاتی دھوتیں، کھانا بناتیں، بچے کھلاتیں اور چھت کی دھوپ میں بال سکھاتیں نظر آتیں۔ نیچے خدا کی مخلوق اپنی زندگی جی رہی تھی اوپر خدا کا بنایا ہوا آسمان تھا جس میں انسانوں نے جگہ جگہ پتنگ ٹانگ رکھے تھے جیسے ان کی ڈوریوں سے یہ زمین اور اس کی کھنڈر نما عمارتیں لٹک رہی ہوں۔ وہ سوچتا، میرے یہاں ہونے کا مقصد؟ اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر دوبارہ سوچتا، یہاں نہ ہوکر بھی میں کون سا تیر مار لیتا؟ تو وہ مڑ کر مہندی لکشمی سے مخاطب ہوتا۔

    ’’اچھا مہندی، میں اگر چلا گیا۔ بلا اور تارا کی طرح تمہیں یاد رہوں گا؟‘‘

    ’’نہ تو میرا بلا نہ تو میرا تارا، تجھے یاد کرنا کیا اور نہ یاد کرنا کیا۔‘‘

    ’’تبھی تو میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ کسی کو تو میری فکر ہو!‘‘

    اور اس دن مرلی نسکر نے سوچا اسے ایک نئی شخصیت چاہئے اور اس نے مونچھیں اگانا شروع کر دیا۔ مگر اس معاملے میں اسے کسی کی مدد چاہئے تھی۔ گرجا شنکر؟ اب گرجا شنکر سے اس کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔ گرجا شنکر چونا گلی کی ایک طوائف سے بیاہ رچا کر کنونٹ روڈ پر تین نمبر پل کے نیچے ایک ممنوعہ جھونپری کھڑی کر چکا تھا اور بچے اگانے میں مصروف تھا۔ اس نے چورگارد میں چائے کی ایک دکان بھی کھول لی تھی جہاں گپی لوگ اڈا دینے جاتے۔ ایک دن مرلی نسکر کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔ اسے لکڑی کے بنچ پر بیٹھنے کا اشار ہ کرکے آنکھ ماری۔

    ’’کس نے کہا تجھے موچھ اگانے کے لئے؟ ویسے اس میں تو اتنا برا نہیں لگتا۔ مگر کس نے کہا؟‘‘

    ’’دل نے۔‘‘

    ’’دل کی بات مانا کر۔ میں نے دل کی بات مانی، اب دیکھ میرے تین بچے ہیں اور یہ میری چائے کی دکان کچھ بری نہیں چلتی اور تیری بھابھی ہر دوسرے مہینے بیمار پڑی رہتی ہے۔‘‘

    ’’کون سی بیماری ؟‘‘

    ’’ عورت کی بیماری۔ اس سے زیادہ نہیں پوچھا کرتے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں اب ہمارے حالات اتنے تو برے نہیں مگر اتنے اچھے بھی نہیں رہے۔‘‘

    ’’تم پچھتا رہے ہو گرجا؟‘‘

    ’’میں نہیں جانتا۔ میں اتنا جانتا ہوں آدمی ہر بار بدل کر خود کو ہی پاتا ہے۔‘‘

    واپسی میں ایک سنسان گلی میں ایک غیر مستعمل گرجا گھر کے پھاٹک کے سامنے مرلی نے پیشاب کرنے کے بعد زپ اوپر کھینچا تو اس کا عضو تناسل اٹک گیا۔ درد سے اس کی چیخ نکل گئی، آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ احتیاط سے زپ لگاکر وہ لوہے کے ڈھلائی لوہے کے پھاٹک کے سہارے بیٹھ گیا۔ اس کا سینہ کانپ رہا تھا۔ اسنے اپنے آنسو پونچھے اور ٹیس کے مدھم پڑنے کا انتظار کرتا رہا۔ درد کی متواتر ٹیس ابھر رہی تھی جیسے اس کی ملائم جلد کو کوئی چیونٹی رہ رہ کر کاٹ رہی ہو۔ تھوڑی دیر بعد اس کے حواس درست ہوئے تو اسے زخم کی جگہ دیکھنے کی ہمت ہوئی۔ کہیں خون نہ بہہ گیا ہو۔ اس نے پھاٹک کی طرف دیکھا۔ اس پر ایک بھاری بھرکم زنجیر لٹک رہی تھی۔ مگر جنگلوں کے نچلے حصے کو آگے پیچھے ہلا کر اتنی جگہ نکال لی گئی تھی کہ انسان کسی قدر محنت کے بعد اور کتے آسانی سے اندر جاس کیں۔ وہ اندر پہنچ کر دیوار کی آڑ میں کھڑا ہو گیا اور اس نے زپ کو نیچے سرکایا۔ ایک جگہ جلد اس طرح کٹ گئی تھی کہ خون کی ننھی ننھی بوندیں نکل کر جم گئی تھیں۔ زپ لگا کر وہ گرجا گھر کے ٹوٹے پھوٹے صحن پر چلتا ہوا چبوترے کے پاس پہنچا اور ایک کہنہ پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اس نے سر کو جھکا لیا۔

    گرجا گھر کی کھڑکیوں کے زیادہ تر شیشے دھندلے مگر محفوظ تھے۔ داخلے کے چوبی دروازے کا ایک سرا ٹوٹ کر پیچھے لٹک گیا تھا۔ یقیناًکچھ لوگوں نے اس کا کوئی نہ کوئی مصرف ضرور نکال لیا ہوگا۔ اس رخنے سے گرجا گھر کے اندر کچھ نہ دکھائی دیتا تھا۔ ہاں بائیں طرٖف ایک مرغولے دار سیڑھی مینار کی طرف چلی گئی تھی۔ اندر سے چمگاڈروں کی بیٹ کی مہک اتنی دور تک آرہی تھی۔

    اگلی بار اس کی گرجا شنکر سے ملاقات اس کے ٹھکانے پر ہوئی تو اس کے چہرے کا رنگ گرا ہوا تھا۔ گرجا نے سر منڈوا لیا تھا۔ اسے شدید بخار بھی تھا۔

    ’’تمہیں کمبل اسپتال جانا چاہئے۔‘‘ مرلی نے مشورہ دیا۔ یہ اسپتال سیالدہ کے قریب واقع تھا۔

    ’’میں جاچکا ہوں۔ انہوں نے میرے خون کی جانچ کی ہے۔ کل رپورٹ مل جائےگی۔‘‘ اس نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا جسے سیا دلاری بنا کر لائی تھی۔ سیا دلاری کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ کبھی وہ چونا گلی میں جسم بیچا کرتی ہوگی۔ لگاتار تین بچوں کے بعد اس کا جسم پھیل گیا تھا۔ سیندور وہ جم کر لگاتی تھی اور بلاناغہ پوجا پاٹ میں لگی رہتی۔ انکی غیرقانونی جھونپڑی ریلوے کی پٹری سے بس ہاتھ بھر کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ جھونپری کے کھلے آنگن میں ایک پتلے بانس پر بھگوا جھنڈا لہرا رہا تھا جس میں ہنومان جی ایک ہاتھ میں گدا اور دوسرے میں پہاڑ اٹھائے اڑ ہے تھے۔ پٹری پر لوکل ٹرین ہر دس منٹ پر دوڑا کرتی اور جھونپڑی کو ہلاتی رہتی۔ تینوں بچے پٹری کے آس پاس رینگتے ہوئے بڑے ہو رہے تھے۔

    ’’مجھے تو تیرا پہلے کا دھندا زیادہ معنی رکھتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ مرلی نسکر نے کہا۔ ’’اور بھابھی کا تو تو نے ستیا ناس ہی کر دیا۔‘‘

    ’’تو جا بھڑوا گری کر۔‘‘ گرجا شنکر نے غصے سے کہا۔ ’’تو ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ کسی رنڈٰ ی کا رکھیل بن جا مرلی۔ اس سے زیادہ تیرا دوسرا مصرف بھگوان کے پاس بھی نہ ہوگا۔‘‘

    ’’چائے اچھی تھی بھابھی۔‘‘ مرلی نے کہا۔ ’’بس ایسا ہے کہ میں ذرا دل کی بات کرتا ہوں۔ مجھے وہ انگریزی میں کیا کہتے ہیں Verbal Diarrhoeaہے۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔کیا۔۔۔؟‘‘ دونوں پتی پتنی نے ایک ساتھ کہا۔

    ’’جانے دو۔‘‘ مرلی نسکر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اگلی بار آؤنگا تو بچوں کے لئے چاکلیٹ لاؤں گا۔‘‘

    ’’اور اس کے بعد بغیر چاکلیٹ کے آؤ گے تو بچے تمہارے بارے میں کچھ اچھا نہیں سوچیں گے۔‘‘ گرجا شنکر کھانستے ہوئے ہنسا۔ ’’ا س چکر میں مت پڑ نا مرلی۔ بچے پالنا کوئی آسا ن کام نہیں اور بچے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ یہ بڑے ہو کر اپنی دنیا کے ہو لیتے ہیں، ہماری طرح۔‘‘

    دوسرے ہفتے مرلی نسکر جب گرجا شنکر کے چائے کے اڈے پر پہنچا تو وہ اڈا اٹھ چکا تھا۔ ریلوے کی پٹری کے کنارے جھونپڑی بھی توڑ دی گئی تھی۔ اس نے آس پاس کے لوگوں سے پتہ چلانے کی کوشش کی مگر کوئی گرجا شنکر کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ویسے بھی پٹری کے کنارے کوئی آبادی تو تھی نہیں صرف جھاڑیاں تھیں یا ایک متروک ریلوے یارڈ کے ٹوٹے پھوٹے سائبان اور کھمبے۔ مرلی چاکلیٹ کھاتا ہوا کولکاتا کی سڑکوں پر لایعنی نظریں ڈالتا واپس لوٹا۔ اس نے مہندی لکشمی کو یہ عجیب و غریب واقعہ بتایا۔

    ’’گرجا نے ٹھکانہ بدل لیا ہوگا۔‘‘ مہندی نے پان کی پیک کونے میں مارتے ہوئے کہا۔ ’’بڑا چالاک ہے گرجا۔ چونا گلی کی سب سے کھبصورت رنڈی سیا دلاری پر ہاتھ مار دیا۔‘‘

    ’’ویسے گرجا بہت بیمار تھا مہندی۔‘‘

    ’’یہ پہلے کیوں نہ بتایا۔ اسپتال دیکھا؟‘‘

    ’’بس یہی چوک ہو گئی۔‘‘ مرلی نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کمبل اسپتال سے ضرور کچھ پتہ چل جائےگا۔‘‘ مگر اتنے بڑے اسپتال میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں آتے، سینکڑوں کی تعداد میں ڈسچارج ہوتے ۔ گرجا شنکر کے بارے میں پتہ لگانا مشکل کام تھا۔ کئی دن تک مرلی دواؤں سے مہکتے اسپتال کے گلیاروں میں گھوما کیا۔ پھر ایک عقلمند دربان نے اسے مردہ گھر کے بارے میں بتایا مگر وہاں بھی رجسٹر میں گرجا شنکر کا نام نہ تھا۔

    ’’میں اب بھی کہتی ہوں گرجا شنکر نے ٹھکانہ بدل لیا ہوگا۔‘‘ مہندی لکشمی بولی۔ ’’جسکی اتنی کھبصورت جورو ہو اسے ٹھکانہ بدلتے رہنا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ گریب کی جورو سارے محلے کی بھابھی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’تو تو بس مہندی سٹھیا گئی ہے۔‘‘ مرلی نے کہا۔ ’’جانے گاہک تیرے میں کیا مزا لیتے ہونگے۔‘‘

    ’’گاہک اپنا مجا خود لے کر آتے ہیں۔‘‘ مہندی اپنے پان خوردہ دانتوں سے مسکرائی۔ ’’ہم لوگ تو بہانے بھر ہیں۔‘‘

    ’’واقعی۔۔۔!‘‘ مرلی مسکرایا۔ ’’میں نے اس نظر سے اس بات کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    اور اس دن سے اس نے گلی میں آنے والوں کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ واقعی یہ ایک حقیقت تھی، یہ لوگ اپنا مزا خود لے کر آتے تھے، بھوکی آنکھیں، رال ٹپکاتے ہوئے ہونٹ، گلی میں دور تک کھڑی ویشیاؤں کے سراپے پر گدھ کی نظریں ڈالتے ہوئے یہ لوگ کمسن، دراز عمر، بوڑھے، جوان، شادی شدہ، غیر شادی شدہ، رنڈوے۔ اگر وہ اس مہانگر کی گلیوں میں آوارہ گھومنا شروع کر دے تو ان میں ہزاروں کو پہچان لے۔ مگر اس سے کیا حاصل؟ کیا اس سے اس کی اپنی یا انکی دنیا بدل جائےگی؟ اس نے دھیرے دھیرے دلالوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کردیا۔ لالہ، رحیم، بغیچہ، گلاب چند۔

    ’’کنگن کوٹا کی چھوریاں بس دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔‘‘ لالہ چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کا ذکر کر رہا تھا۔ ’’ان شہری لڑکیوں کی طرح پلپلی نہیں۔ بدن انار کی طرح گدّر، انگلی سے ٹھوکو کہ ٹن۔ مگر سالیاں کولکاتا آنا نہیں چاہتیں۔‘‘

    ’’بنگلہ دیش کی لڑکیوں نے سالا یہاں بجار کھراب کر دیا ہے۔‘‘ بغیچہ نے کھینی ٹھونکتے ہوئے کہا۔ ’’اور بھئیے، آج کل کتنی کم سن لڑکیاں چلی آ رہی ہیں۔ ابے گلاب۔۔۔‘‘ اسے یاد آیا۔ ’’ابے لاریٹو کی جو لڑکی آتی تھی، اب نظر نہیں آتی، کیا نام تھا اس کا؟‘‘

    ’’اس کا بیاہ ہو گیا رہےگا۔‘‘ رحیم کھکھلا کر ہنسا۔ اس کے دانت پیلے ہو رہے تھے۔ وہ آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے اور گلی میں داخل ہونے والوں پر نظریں بھی رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن مہندی لکشمی نے اسے وہاں سے بلوا بھیجا۔ ایک ادھیڑ عمر کا ناٹا آدمی مرلی کا انتظار کر رہا تھا۔

    ’’سیا دلاری۔‘‘ مہندی نے پان خوردہ دانتوں کو چمکاتے ہوئے کہا۔’’ وہ چونا گلی میں تیری باٹ جوہ رہی ہے۔‘‘

    ’’معاملہ کیا ہے؟‘‘ مرلی نے ناٹے آدمی سے پوچھا جو مہندی لکشمی کی بنائی ہوئی چائے سڑپ رہا تھا۔

    ’’مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘ وہ بھی کوئی دلال ہی تھا۔ ’’بس سیا دلاری نے پرارتھنا کی سوتم تک سندیس پہنچا دیا۔ اچھا بھابھی، کبھی کونو جرورت آن پڑے تو یاد رکھئےگا۔ میرا نام ہری ناتھ ہے۔‘‘

    ’’تو چونا گلی نہیں جائےگا؟‘‘ ہری ناتھ کے جانے کے بعد مہندی لکشمی نے پوچھا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کارن؟‘‘

    ’’اب کسے کارن دیتا پھروں بھلا۔ بس نہیں جاتا۔‘‘

    مگر اس نے جھوٹ کہا۔ فرصت ملتے ہی وہ سیدھا چونا گلی نکل گیا۔

    اس نے سیا دلاری کو اپنے تین بچوں کے ساتھ چوتھے مالے پر لکڑی کے ایک کھوکھے کے اندر بیٹھا پایا۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ اس نے مرلی کو دیکھ کر اپنا بھاری پستان ساڑی کے آنچل سے چھپا لیا۔

    ’’گرجا کدھر کو ہے سیا؟‘‘ مرلی نے پیش کردہ مونڈھے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اسے چونا گلی نہیں بھا رہی تھی۔ یہاں آس پاس کی گلیوں سے چمڑے کے گوداموں کی کتنی تیز سڑاند بہہ کر آ رہی تھی، جیسے جراثیم ہوا میں تیر رہے ہوں۔

    ’’میرے کو کیا معلوم۔‘‘ سیا دلاری بولی۔ ’’بس ایک دن وہ دکھائی نہیں دیا۔ سالا سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔‘‘

    مرلی کو پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ اس نے پہلی بار سیا دلاری کے سراپے کا جائزہ لیا۔ گرچہ اس کا جسم پہلے جیسا نہیں رہ گیا تھا مگر چونا گلی لوٹنے کے بعد شاید اس کا کھویا ہوا کچھ واپس لوٹنے لگا تھا۔ مرلی نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔

    ’’گاہک لینے لگی ہو؟‘‘

    ’’ابھی تو نہیں۔‘‘ سیا دلاری بولی، پھر دروازہ بند کرنے کا اشارہ کیا۔ ’’مجھے ایک آدمی چاہئے۔‘‘

    ’’وہ ہری ناتھ کیا برا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ سیا دلاری بولی۔’’نوا آدمی چاہئے۔‘‘

    ’’آج کل گاہک اپنی پسند کی رنڈیاں خود ڈھونڈ نکالتے ہیں، بڑی طاقتور عینکیں لے کر آتے ہیں۔‘‘ مرلی نے ماحول کی گمبھیرتا کو کم کرنے کے لئے کہا۔

    ’’میں نیچے نہیں کھڑی ہو سکتی۔‘‘ سیا دلاری بولی۔ ’’میرے تین بچے ہیں ۔‘‘

    ’’انہیں اناتھ آشرم میں ڈال دو۔‘‘

    ’’تم ہی ڈال آؤ۔‘‘ مرلی نے دیکھا سیا کی آنکھیں گیلی ہورہی تھیں۔ مرلی کھکھلا کر ہنس پڑا۔

    ’’ایسی نرم پڑےگی تو جی سکےگی سیا؟ میں وعدہ نہیں کرتا، مگر گرجا کا لحاظ ہے مجھے۔ گرجا نے ایک بار مجھے بھڑوا گری کے طعنے دیے تھے، آج اس کی جورو مجھے اس راستے پر لگا رہی ہے۔‘‘

    ’’جیون کے سارے راستے ایک ہی جیسے ہیں۔‘‘ سیا دلاری اپنی ساڑی کے پلو سے آنکھ پوچھتے ہوئے بولی۔’’ کہیں پر کچھ اچھا ہے تو کہیں پر کچھ برا۔ مگر کل ملا کر سب ایک ہی جیسا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو میں نے کسی کتاب میں بھی نہیں پڑھا۔‘‘

    ’’سیا دلاری سے پڑھ لے۔‘‘ اس نے بچے کو چارپائی پر لٹاتے ہوئے کہا اور اپنے بالوں پر کنگھی کرنے لگی۔ مرلی کے سامنے ہی اس نے اپنی ساڑی بدلی، بال باندھے، میک اپ کیے، بندیا چپکائی اور اس سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کسی ماڈل کی طرح اپنے داہنے کولھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ مرلی کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ واقعی سیا دلاری بےانتہا خوبصورت تھی۔ اس نے آنکھیں پھیر لیں۔

    ’’آنکھیں پھیر لیا۔‘‘ سیا کی آواز آئی۔ ’’میں اچھی نہیں لگتی تیکو؟‘‘

    ’’اپنے گاہکوں سے پوچھنا۔‘‘

    ’’تم سے پوچھتی ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر گاہکوں سے پوچھنا پڑےگا۔‘‘ سیا دلاری مسکرائی۔ ’’مرلی، گرجا سے تیرے بارے میں جتنا سنا تھا اس سے کم نہیں تو۔ ارے تو تو بھڑوؤں سے بھی گیا گذرا ہے۔‘‘

    اسے سیا کے لئے گاہک جٹانے میں کٹھنائیاں آرہی تھیں۔ زیادہ تر گاہک کمسن لڑکیاں مانگتے تھے۔ مگر اس نے دیکھا تھا ایک بار جو گاہک سیاکے پاس آتا وہ بار بار آتا۔ مہندی لکشمی کو اس کے اس کام پتہ جب چلا جب مرلی نے اسے خود بتایا۔ مہندی لکشمی کی سانس اوپر کی اوپر رہ گئی۔

    ’’مرلی، تو بھی بھڑوا!‘‘ اس نے کہا۔ ’’ہے بھگوان، میں نے کیا کیا سپنے دیکھ رکھے تھے تیرے لئے۔‘‘

    ’’تو سپنے بہت دیکھتی رے۔‘‘ مرلی ہنسا۔ ’’اور یہ بری عادت ہے مہندی۔‘‘

    چھ ماہ کے اندر اندر سیا دلاری پوری طرح بزنس میں واپس آ چکی تھی۔ اس کے بہت سارے پرانے گاہک بھی اس کے پاس لوٹ آئے۔ ان میں سے بہت سے تو سماج میں بڑے کامیاب بیوپاری بن کر ابھرے تھے۔ آدھی رات کو تھکا ماندا جب وہ مہندی لکشمی کے پاس لوٹتا تو وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتی۔

    ’’کتا پی کے آنے لگا ہے مرلی! سیا نے تجھے کھراب کر دیا، سالی چھنال۔‘‘

    ’’گالی دے لے، پن یادر کھنا۔۔۔‘‘ مرلی نشے کی دھن میں بکتا جاتا۔’’ وہ چونا گلی کی چندرمکھی ہے۔‘‘

    ’’اور میں، میں کچھ نہیں؟‘‘ مہندی لکشمی غرائی۔

    ’’تم ایک پرانی ہانڈی ہو۔ تیرے اندر اب راکھ رہ گیا ہے مہندی۔‘‘

    اور مہندی لکشمی جوتی لے کر اس پر پل پڑتی۔ وہ مار کھاتا جاتا اور سیڑھیوں اور دالانوں میں بھاگتا رہتا۔ باقی رنڈیاں کھکھلاتے ہوئے اس دوڑ دھوپ کا مزا لیتیں اور جب دونوں تھک جانتے مرلی مہندی لکشمی کے سینے پر سر رکھ کر کہتا۔

    ’’مجھے زور کی بھوک لگی ہے مہندی۔ سب کچھ کتنا خالی خالی سا لگتا ہے، شاید روٹی سے بھر سکے۔‘‘

    اور مہندی اس کے لئے روٹی سینکنے بیٹھ جاتی۔

    پچھلے تین دن سے سیا دلاری نے کوئی گاہک نہیں لیا تھا۔ اب وہ اپنا کمرہ بدل چکی تھی۔ نئے کمروں میں ٹی وی اور ریفر یجر یٹر آ چکے تھے، اس نے بچوں کو سنبھالنے کے لئے ایک آیا بھی رکھ لی تھی۔ ان دنوں وہ سلائی مشین پر سلائی سیکھ رہی تھی۔ اسے سلائی سکھانے ایک ٹوپی پہنے داڑھی والے مولانا آتے۔

    ’’سیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’ایک بات پوچھوں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    مرلی نے سر کھجا کر کتاب کے اندر ناک ڈبونے کی کوشش کی۔

    ’’کیا پوچھنا چاہ رہا ہے تو؟‘‘ تھوڑی دیر بعد سیا نے سلائی مشین پر اپنا کام روکے بغیر کہا۔

    ’’گرجا کا آخر کیا ہوا؟‘‘

    ’’میں نے بتایا نا میں نہیں جانتی۔‘‘

    ’’تم بتانا نہیں چاہتی۔‘‘

    ’’کیا گرجا کے بغیر جندگی نہیں چل رہی؟‘‘ مشین کی کھٹ کھٹ کھٹ۔

    ’’عجیب بات ہے۔‘‘ یکایک مرلی کتاب رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اسٹول پر بیٹھی سیا کے پیچھے رک کر اس کی گوری ملائم گردن کو سہلانے لگا۔

    ’’کیا چاہئے تجھے؟‘‘ سیا نے گردن اس کے ہاتھ سے دور لے جاتے ہوئے اس کی طرف غصیلی آنکھوں سے تاکتے ہوئے کہا۔

    ’’آج تو تو نہا بھی چکی۔ مجھے بھی عورت کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’دور ہٹ!‘‘ سیا اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی۔ ’’کھبردار جو مجھے ہاتھ لگایا۔‘‘

    ’’مگر کیوں؟‘‘ مرلی نے اچنبھے سے کہا۔ ’’اگر تو سمجھتی ہے کہ میں مفت میں چاہ رہا ہوں تو میں پیسہ دینے کو تیار ہوں۔‘‘

    ’’مرلی، میں کہتی ہوں کھبردار جو کریب آیا۔‘‘ اس نے جھک کر اسٹو کے اوپر سے ٹھنڈا توا اٹھا لیا۔

    ’’کمال ہے۔‘‘ مرلی نے دست بردار ہوتے ہوئے کہا۔ ’’آخر تم ہو کیا، ایک ویشیا۔‘‘

    ’’ہاں، مگر سب کے لئے نہیں۔‘‘

    ’’میں کام چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اپنے لئے کوئی دوسرا بھڑوا ڈھونڈھ لے۔‘‘

    ’’مرلی!‘‘ مرلی کو اپنے پیچھے سیا کی سسکی سنائی دی۔ ’’تجھے پتہ بھی ہے گرجا کو کیا ہوا تھا۔ کتنی بھیانک بیماری ہو گئی تھی اسے۔‘‘

    مرلی مڑا۔ سیا کی آنکھوں میں کاجل کے سیاہ قطرے تیر رہے تھے۔

    ’’کھون کا رپٹ ملتے ہی اسے پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’پولیس والے ہمیں بھی پکڑنے آئے تھے مگر میں اپنے بچوں کے ساتھ بھاگ نکلی۔‘‘

    ’’گرجا اب پولیس کی حراست میں ہے؟‘‘

    ’’وہ اسپتال سے بھاگ نکلا اور اس نے لوہا پل کے نیچے ریل سے کٹ کر جان دے دی۔‘‘

    مرلی کا سر چکرانے لگا۔ اس کے پاؤں جواب دے گئے اور وہ سیا کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ ’’اور تو سیا؟ تجھے بھی یہ بیماری ہے۔‘‘

    ’’میں نہیں جانتی۔ میں نے کبھی جانچ نہیں کروائی۔‘‘

    ’’مجھے پاس پھٹکنے نہیں دیتی۔ کچھ تو گڑبڑ ہے۔‘‘

    ’’میرے پاس تیرے ساتھ جاستی بات کرنے کے لئے ٹیم نہیں ہے۔‘‘ سیا سلائی مشین پر بیٹھ گئی اور کھٹ، کھٹ، کھٹ۔ ’’اور اب شاید تو میرے کسی کام کا بھی نہیں۔ جا، میں کوئی نوا آدمی ڈھونڈ لےگا۔‘‘ مشین کے شور کے بیچ اس کی آواز ابھری ۔

    مرلی کو واپس پا کر مہندی لکشمی خوش تھی۔ وہ مرلی کی نئی کتابوں پر پیار سے انگلیاں پھیر رہی تھی۔ مگر مرلی کم گو اور چڑ چڑا ہو گیا تھا۔

    ’’سیا نے تجھے نکال دیا؟‘‘ مہندی چہکتے ہوئے بولی۔

    ’’مہندی اب بس بھی کر۔‘‘ مرلی نے کہا۔ پھر مہندی نے کبھی سیا کا ذکر نہیں چھیڑا۔

    ٹوٹے پھوٹے مکانوں کے سلسلوں میں ایک قریبی مسجد کی اذا ن بلاتفریق ہر کمرے میں پھیلا کرتی۔ مرلی کمزور منڈیر پر جھکا چیل کوؤں سے لیس آسمان کو تاک رہا تھا۔ بیچ بیچ میں وہ ماؤ تھ آرگن کو بھی ہونٹ سے لگا لیتا مگر اسے بجانا بھول جاتا۔ نیچے گاہکوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے خلا میں تھوک کر اپنے گھنے بالوں کے اندر اپنی انگلیاں پیوست کیں۔ مرشد آباد سے آئی ہوئی طوائف مور بی بی اپنے بچے کو کالکھ کا ٹیکا لگا رہی تھی۔

    ’’مرلی تو شادی کیوں نہیں کر لیتا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’مجھ سے کون شادی کریگا مور بی بی۔‘‘

    ’’کون نہیں کرےگا؟‘‘

    ’’یہ بھی کوئی جواب ہوا بھلا۔‘‘ مرلی نے گہرے آسمان میں تاکتے ہوئے کہا جہاں بادلوں کے بیچ سرخ دھاریاں تیر رہی تھیں۔ ’’جانے اس میں کوئی پرلوک ہے بھی کہ نہیں۔‘‘ اس نے خود سے کہا اور سیڑھیاں طے کرتے ہوئے نیچے گلی میں اتر آیا جہاں ایک کتیا زمین پر لیٹی درد زہ سے کراہ رہی تھی۔ کچھ خاموش بچے تماشائی بنے اسے گھیرے ہوئے تھے۔

    ’’جاؤ بھاگو گھر۔‘‘ مرلی نے انہیں بھگا دیا۔ وہ تیزی سے چونا گلی کی طرف جا رہا تھا۔ سیا نے اسے دیکھ کر کسی حیرت کا اظہار نہیں کیا۔

    ’’سیا تجھے یہ دھندہ بند کرنا ہوگا۔‘‘ مرلی نے کہا۔ ’’میرے کو تجھ سے شادی بنانے کا ہے۔‘‘

    ’’میں تجھ سے شادی کرنے کے لئے مری جارہی ہوں۔‘‘

    ’’تجھے ہر حال میں دھند ا بند کرنا ہوگا۔ تو یہ خطرناک مرض نہیں پھیلا سکتی۔‘‘

    ’’کس نے تجھ سے کہہ دیا کہ مجھے کوئی بیماری ہے اور کون بھرے گا ہمارا پیٹ۔۔۔‘‘ سیا مسکرائی۔ ’’سیا دلاری کا بھڑوا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ مرلی نے کہا۔ ’’میں تیرے بچوں کی پرورش کریگا، تیری جانچ کرائے گا۔‘‘

    پل بھر کے لئے سیا خاموش رہی۔ پھر جیسے اس پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا ہو۔

    ’’دور ہٹ میری نظروں کے سامنے سے، دور ہٹ، دور ہٹ، دور ہٹ، دور ہٹ، دور ہٹ۔‘‘

    اپنے جنون میں اس نے چاقو کو نہیں دیکھا جو مرلی کے بائیں ہاتھ میں چمک رہا تھا۔

    مرلی نسکر کے پاگل پن کی خبر پورے سونا گاچھی میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مہندی لکشمی کتیا کے نوزائیدہ بچوں کو اٹھا لائی تھی اور انکی دیکھ بھال کرنے میں مصروف تھی جب اسے یہ اطلاع ملی۔ وہ دوڑتی ہوئی مرلی تک گئی مگر اسنے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ کچھ باوردی پولیس والے مرلی کے پیچھے لگے تھے کیونکہ اس پر چونا گلی میں سیا دلاری کے خون کا الزام تھا۔ پولیس والے دوسرے دلالوں کی مدد سے اسے باندھ کر لے تو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد وہ پھر سے واپس آ گیا۔ اس نے مہندی لکشمی کی بالکنی کے نیچے اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ بڑے بڑے بال اور داڑھی کے اندر اس کا چہرہ یوں نظر آنے لگا تھا جیسے وہ اپنی صلیب سے کچھ ہی فاصلے پر جی رہا ہو۔ وہ زیادہ ترکسی غلیظ دیوار سے پیٹھ لگائے گلی سے گذرتے لوگوں پر ہانک لگایا کرتا۔

    ’’اس سے دور رہو، اس سے دور رہو، اس کے اندر بچھو کلبلا رہے ہیں، اس سے دور رہو۔ ‘‘

    مہندی نے اس کی یادداشت واپس لانے کے لئے اس کی ساری کتابیں اس کے پاس بھجوا دیں مگر وہ کتابیں اس کے پاس پڑی کی پڑی رہیں۔ اس نے انہیں کھولا تک نہیں تھا۔ پھر ایک دن وہ انہیں اٹھا کر ایک نالے میں پھینک آیا۔

    ’’ان سے دور رہو۔‘‘ اس نے نالے کے کنارے بیٹھے دست کرتے بھکاری سے کہا جو اپنی اکلوتی آنکھ سے اسے تاک رہاتھا۔ ’’اچھی چیزیں نہیں ہیں یہ ، ان کے اندر بچھو کلبلا رہے ہیں۔ ‘‘

    گرجا گھر کے نیم اندھیرے میں آتمائیں گرتی پڑتی داخلے کی طرف بھاگی رہی تھیں۔ گرجا شنکر کی آتما نے اپنا ہاتھ دونوں طرف پھیلا کر انہیں روکا۔

    ’’وہ سیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’سب دور رہو۔‘‘

    مگر آتمائیں اس کے اندر سے نکلتی چلی گئیں۔ سیا دلاری کی آتما اپنے لمبے گھنے بال بکھیرے نوکیلی دیوار پر چل رہی تھی۔

    ’’دیکھو دیکھو۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی۔’’ اب مجھے کیا کچھ آ گیا ہے۔‘‘

    وہ ننگی تھی اور خوبصورت تھی اور اس کی آنکھیں سبز تھیں اور اس کے پستانوں سے دودھ بہہ رہا تھا اور اس نے گرجا کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ گرجا نے اپنے لانبے لانبے ناخنوں سے اس کی آنکھیں نکالنے کی کوشش کی۔

    ’’کیوں؟‘‘ سیا کی آتما نے احتجاج کیا۔ مگر اس کی ایک آنکھ گرجا نکال چکا تھا، جس سے لا پروا اس کی دوسری آنکھ مٹک رہی تھی۔

    ’’تم میرے بچوں کو کیوں چھوڑ آئی؟‘‘

    ’’وہ ہمارے بغیر زیادہ خوش ہیں۔‘‘ سیاکی آتما نے کہا۔ ’’اور مرلی نے آتم ہتیا کرلی ہے۔ وہ چھت پر ہوگا۔‘‘

    ساری آتمائیں گرتے پڑتے چھت کی طرف بھاگیں۔ آسمان تاروں سے ڈھکا ہوا تھا جن کی روشنی میں مرلی منڈیر پر جھکا ایک کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ اس نے انہیں دیکھ کر اپنی ناک حقارت سے سکوڑ کر شہر کی طرف اشارہ کیا جو روشنی میں نہا رہا تھا۔ ’’ تمہیں اس شہر سے متلی نہیں آتی؟‘‘

    ’’اور تمہیں؟‘‘ آتماؤں نے پوچھا۔

    ’’چپ رہو۔‘‘ مرلی نے جواب دیا اور جیب سے ماؤتھ آرگن نکال کر بجانے لگا۔ یہ آواز کسی ان دیکھی آتما کی طرح روشن شاہراہوں پر پھیلا کی۔ مگر اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف لوگوں نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ انہیں اس سے زیادہ ضروری کام تھے۔

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے