بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے
بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے
سو تاحد نظر وہم و گماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصار ذات سے کوئی مجھے بھی تو چھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے
- کتاب : سبھی رنگ تمہارے نکلے (Pg. 33)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2017)
- اشاعت : First
- کتاب : واہمہ وجود کا (Pg. 31)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.