کہانی کی کہانی
مستقبل میں خلا میں آباد ہونے والی دنیا کا نقشہ اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک لڑکی برسوں سے خلائی اسٹیشنوں پر رہ رہی ہے۔۔۔ وہ مسلسل سیاروں اور مصنوعی سیاروں کے سفر کرتی رہتی ہے اور اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ انھیں مصروفیات کی وجہ سے اسے اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ زمین پر رہنے والے اپنے افراد خانہ سے کچھ لمحے کے لیے بات کر سکے۔ انہیں اسفار میں اسے ایک شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس شخص سے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے اسے بیس سال کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس درمیان وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے، کہ آنے والی نسل کے لیے محبت کرنا آسان ہو سکے۔
اپنا خلائی سوٹ پہنے آنکھوں اور کانوں پر خول چڑھائے خلائی دور میں اپنی چمکدار اورخوبصورت آنکھوں سے وہ خلا کے کتنے ہی سیارے دیکھ چکی تھی۔ ہر رنگ کے آسمان ہر رنگ کی زمین! اور ہر رنگ کے ہزار روپ۔
اسے زمین سے دور خلائی مرکز میں رہتے ہوئے دس سال بیت گیے تھے۔ زمین میری پیاری زمین! اسے ہر سیارے سے اپنی زمین پیاری لگتی۔ وہ زمین کی طرف ہاتھ کر کے اپنے ہونٹوں سے اپنی انگلیاں چوم لیتی اور اس کا یہ اڑتا ہوا بوسہ زمین کو اس کے پاس لے آتا۔ اسے یہ محسوس ہوتا کہ وہ اپنے ننھے سے خوبصورت کنبہ میں موجود ہے۔ اس کا باپ اپنے کمرے میں بیٹھا بٹن دباکر زمین پر ہل چلا رہا ہے اور خود کار مشینوں سے گھاس کے گٹھے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس کی ماں ابھی تک اپنے ہاتھ سے کھانا پکانا پسند کرتی ہے، اس لیے باورچی خانے میں ہے۔ ماں کے ہاتھ کا بنایا ہوا خوشبودار سوپ اسے خلا میں اڑتے ہوئے بھی اکثر یاد آتا۔ مگر ان دس سالوں سے وہ صرف چار رنگ برنگی گولیوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ ان میں سے ہر گولی میں اتنی غذائیت تھی کہ اسے سارے دن میں بس تین گولیاں لینی پڑتی تھیں۔ پانی اس کے پاس موجود ہوتا تھا۔ خلائی جہاز میں پانی کی کمی نہ تھی۔
اس نے دس سال کی عمر میں خلائی ٹریننگ لینا شروع کی تھی اور اب تک وہ ہرقسم کے کیپسولوں اور خلائی ریلوں اور جہازوں میں سفر کر چکی تھی۔ وہ اپنی پھرتی اور سمجھداری کی وجہ سے خلا کے اہم ترین مشن میں شامل ہوتی تھی۔ مختلف سیاروں کے درمیان بھائی چارے اور خیرسگالی کو فروغ دینے والوں میں اس کا نام اہم تھا۔ کبھی کبھی اس کا جی چاہتا تھا کہ خلائی جہاز اور خلائی اسٹیشن اور سیاروں سے دور اپنی زمین پر جاکر وہ پورا ایک دن گزارے۔ کم از کم ایک دن کی چھٹی ملے تو وہ زمین پر جائے۔
اس کے سب ساتھی بھی اس کی طرح خلائی لباس میں ہمیشہ بہت زیادہ مصروف بھاگتے اور دوڑتے نظر آتے۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ انھیں ایک دوسرے سے ملنے اور بات کرنے کے مواقع ملتے بھی تو ذاتی باتیں کم ہوتیں کام سے متعلق باتیں زیادہ۔۔۔ اتنی مصروفیت میں بھی وہ یہ معلوم کر لیتی کہ اس کی کون سی دوست کی ماں، باپ یا کنبہ کا کوئی فرد بیمار ہے یا مر چکا ہے اور وہ دوڑتے بھاگتے چند لفظ اپنی ساتھی کے پاس بیٹھ کر دلجوئی اور ہمدردی کے ادا کرتی اور اس کا محبت سے ہاتھ پکڑتی۔ وہ سب کارکن ہمدردی اور محبت کی اتنی سی فرصت کو بہت جانتے تھے اور کسی کو کسی سے کوئی گلا نہ ہوتا تھا۔
اس کی دو چھوٹی بہنیں تھیں جو اسے بہت یاد آتی تھیں اور اسے جب بھی چند لمحوں کی چھٹی ملتی وہ زمین پر کنٹرول روم کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کرکے بات کر لیتی۔ لیکن یہ لمحوں کی فرصت بھی اتنی کم ملتی کہ ان کی خیریت جانے اسے مہینوں گزر جاتے۔ اس کی ماں اسے سالگرہ کے دن ضرور پیغام بھیجتی اور بتاتی کہ زمین پر ہم تمہاری سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں اور وہ زمین کی طرف اپنا ہاتھ کرکے جب اڑتا ہوا بوسہ اپنے ہی ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں پر محسوس کرتی تو سوچتی کہ اس نے اپنی ماں اور بہنوں کو پیار کر لیا ہے۔ اپنی سب سہیلیوں کو پیار کر لیا ہے اور اپنی زمین کو پیار کر لیا ہے۔
اس کی بیسویں سالگرہ پر اس کی ماں نے کہا تھا، ’’میرا جی چاہتا ہے تمہیں چاند تاروں کے جال سے نکال کر تمہارا بیاہ کر دوں۔‘‘ وہ ہنس پڑی، ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے مجھے فرصت کہاں ہے۔‘‘ اس کی ماں نے کہا، ’’سنو اگر تم اپنے دل میں محبت کا جذبہ کبھی محسوس کرو تو ضرور شادی کر لینا۔ اب میں بوڑھی ہو چکی ہوں اور یہ خوشی میری آرزو ہے۔‘‘ وہ بولی، ’’میں نے اب تک وہ جذبہ محسوس نہیں کیا۔ اب تک کوئی اجنبی میرے اتنے قریب نہ آسکا۔‘‘ اور پھر ان کا بات کرتے ہوئے رابطہ کٹ گیا تھا۔ اس روز سالگرہ کی خوشی میں اسے خلائی اسٹیشن والوں نے تین منٹ کی کال دی تھی۔ جو سب سے لمبی کال سمجھی جاتی تھی اور اس نے اپنی ماں اور بہنوں کی آواز سن کر بڑی خوشی محسوس کی تھی۔ خلائی اسٹیشن والوں کے اس تحفہ کے لیے وہ ان کی شکرگزار تھی۔
ایک دن جب وہ اپنے خلائی جہاز کو لے کر مریخ کی طرف جا رہی تھی تو خلائی جہاز کا کوئی پرزہ اچانک خراب ہو گیا۔ اس نے کنٹرول روم کو اطلاع دی۔ اسے کنٹرول روم سے ہدایت ملی کہ وہ خلائی اسٹیشن ۷۰۰۰۷ میں چلی جائے جو وہاں سے قریب ہے اور اس عرصہ میں جہاز کی مرمت کردی جائےگی۔ وہ خلائی اسٹیشن ۷۰۰۰۷ پہنچی۔
خلائی اسٹیشن کے چھوٹے سے کمرے میں اسے ایک خلا نورد نظر آیا۔ وہ خلائی لباس پہنے ہوئے تھا مگر اس کی ٹوپی سر پر نہ تھی۔ کام کرتے ہوئے اتنے بہت سے خودکار کمپیوٹروں کے درمیان وہ خود بھی ایک کمپیوٹر معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن اس کی بےپناہ خوبصورت آنکھیں یہ بتارہی تھیں کہ وہ کمپیوٹر نہیں ایک انسان ہے۔ اتنی خوبصورت اور ذہین آنکھیں اس نے زندگی میں شاید پہلی بار دیکھیں، چند لمحوں کے لیے وہ حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ اس نے اپنی خلائی ٹوپی اتار لی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ خلائی اسٹیشن پر اچانک دو چاند ایک دوسرے کے مقابل آ گیے ہیں۔ وہ اس سے کچھ بولنا چاہ رہی تھی اور شاید وہ کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اچانک خلائی سگنل سن کر دونوں چونک پڑے۔ اسے چاند کے کنٹرول روم سے اطلاع دی جا رہی تھی کہ اس کا خلائی جہاز بالکل ٹھیک ہو گیا ہے اور اسے واپس آ جانا چاہیے۔ وہ اسے جلدی سے خدا حافظ کہہ کر اپنی کیپسول میں سوار ہو گئی۔
جب وہ خلائی کیپسول میں سوار ہو رہی تھی تو خلاباز اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آیا اور وہ اپنی حیران حیران خوبصورت آنکھوں میں کوئی سوال لیے کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا۔ شاید وہ اس کا نام پوچھنا چاہتا تھا۔ اس نے پکار کر اپنا نام بتایا۔ جانے وہ سن سکا یا نہیں! پھر اس نے خلائی ٹوپی پہن لی۔
دوسرے لمحے وہ خلائی اسٹیشن میں تھی جہاں بھانت بھانت کے سگنل اس کے منتظر تھے۔۔۔ رابطہ۔۔۔ چاند سے رابطہ۔۔۔ مریخ سے رابطہ۔۔۔ اور پھر زہرہ سے رابطہ۔ اس نے پریشان ہوکر سوچا یہ خلائی ریلیشننگ کا کام بھی کتنا مشکل ہے۔ کاش اسے اس خلانورد کا نام پوچھنے کی فرصت مل جاتی۔ ابھی تک وہ آنکھیں اس کے سامنے تھیں مگر اسے معلوم تھا کہ خلائی ریلیشننگ کے مرکز میں کام کرتے ہوئے بھی بے نام آدمی کو ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ کاش وہ ایک دوسرے کا نام جان سکتے، اس نے اداس ہوکر سوچا۔ اس روز وہ اس اجنبی کے لیے بھی اسی طرح سوچنے لگی جس طرح اپنے قریبی کنبے کے بارے میں سوچا کرتی تھی۔ اس نے خلائی اسٹیشن ۷۰۰۰۷ پر رابطہ قائم کرکے بات کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ایک روز پہلے جو شخص اسے ملا تھا اس کے بعد سے تو اب تک اسٹیشن میں سیکڑوں لوگوں کی ڈیوٹی لگ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صحیح سیکنڈ بتایا جائے تو ڈیوٹی لسٹ سے معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن وہ سیکنڈ یاد نہ رکھ سکی کیونکہ اس کو یہ بھی یاد نہ تھا کہ کتنے سیکنڈ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
اور پھر کئی سال گزر گیے۔ اسے بحر قلزم، بحر روم اور بحرالکاہل کے ساحل یاد آتے۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ زمین پر جائے۔ زمین کی سی نرم ریت کسی سیارے میں نہیں ہے۔ اکثر سیاروں کی کھردری اور سخت زمین پر چلتے ہوئے اسے زمین کی ریت کی گرمی اور نرمی یاد آیا کرتی تھی۔ مگر ایک لمبے عرصہ سے اسے زمین پر جانے کی چھٹی نہ ملی تھی۔
کبھی کبھی اسے اپنی پردادی کی سنائی ہوئی کہانیاں یاد آتیں۔