کوکھ جلی
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسی ماں کی کہانی ہے جو پھوڑے کے زخموں سے پریشان بیٹے سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ حالانکہ بیٹے کے ناسور بن چکے زخم سے ساری بستی ان سے نفرت کرتی ہے۔ شروع کے دنوں میں اس کا بیٹا شراب کے نشے میں اس سے کہتا ہے نشے میں بہت سے لوگ اپنی ماں کو بیوی سمجھنے لگتے ہیں مگر وہ ہمیشہ ہی اس کی ماں ہی رہی۔ حالانکہ شراب پی کر آنے کے بعد وہ بیٹے کے ساتھ بھی ویسا ہی برتائو کرتی ہے جیسا کہ شوہر کے ساتھ کیا کرتی تھی۔
گھمنڈی نے زور زور سے دروازہ کھٹ کھٹایا۔ گھمنڈی کی ماں اس وقت صرف اپنے بیٹے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ پہلے پہر کی نیند کے چوک جانے سے اب اسے سردیوں کی پہاڑ ایسی رات جاگ کر کاٹنا پڑے گی۔ چھت کے نیچے لاتعداد سرکنڈے گننے کے علاوہ ٹڈیوں کی اداس اور پریشان کرنے والی آوازوں کو سننا ہو گا۔ دروازے پر زور زور کی دستک کے باوجود وہ کچھ دیر کھاٹ پر بیٹھی رہی، اس لیے نہیں کہ وہ سردی میں گھمنڈی کو باہر کھڑا کر کے اس کے گھر میں دیر سے آنے کی عادت کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی ہے، بلکہ اس لیے کہ گھمنڈی اب آ ہی تو گیا ہے۔
یوں بھی بوڑھی ہونے کی وجہ سے اس پر ایک قسم کا خوشگوار آلکس، ایک میٹھی سی بے حسی چھائی رہتی تھی۔ وہ سونے اور جاگنے کے درمیان معلق رہتی۔ کچھ دیر بعد ماں خاموشی سے اٹھی۔ چارپائی پر پھر سے اوندھی لیٹ کر اس نے اپنے پاؤں چارپائی سے دوسری طرف لٹکائے اور گھسیٹ کر کھڑی ہو گئی۔ شمعدان کے قریب پہنچ کر اس نے بتّی کو اونچا کیا۔ پھر واپس آ کر کھاٹ کے سانگھے میں چھُپائی ہوئی ہلاس کی ڈبیا نکالی اور اطمینان سے دو چٹکیاں اپنے نتھنوں میں رکھ کر دو گہرے سانس لیے اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ لیکن تیسری دستک پر یوں معلوم ہوا جیسے کواڑ ٹوٹ کر زمین پر آ رہیں گے۔
’’ارے تھم جا۔ اجڑ گئے۔‘‘ ماں نے برہم ہو کر کہا، ’’مجھے انتظار دکھاتا ہے اور آپ ایک پل بھی تو نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
کواڑ کے باہر گھمنڈی کے کانوں پر لپٹے ہوئے مفلر کو چیرتے ہوئے ماں کے یہ الفاظ گھمنڈی کے کانوں میں پہنچے۔ ’’اجڑ گئے۔‘‘ ماں کی یہ گالی گھمنڈی کو بہت پسند تھی۔ ماں اپنے بیٹے کے بیاہ کا تذکرہ کرتی اور بیٹا بظاہر بے اعتنائی کا اظہار کرتا، جب بھی وہ یہی گالی دیتی تھی۔ ایک پل میں گھر کو بسا دینے اور اجاڑ دینے کا ماں کو خاص ملکہ تھا۔
اس طور پر اتاؤلے ہونے کا گھمنڈی کو خود بھی افسوس ہوا۔ اس نے مفلر سے اپنے کان اچھی طرح ڈھانپ لیے، اور جیب سے چرا ئے ہوئے میکروپولو کا ٹکڑا سلگا کر کھڑا ہو گیا۔ شاید ’آگ‘ سے قریب ہونے کا احساس اسے بے پناہ سردی سے بچا لے۔ پھر وہ میکروپولو کو ہوا میں گھما کر کنڈل بنانے لگا۔ یہ گھمنڈی کا محبوب مشغلہ تھا جس سے اس کی ماں اسے ’اوگن‘ بتا کر منع کیا کرتی تھی۔ لیکن اس وقت کنڈل سے نہ صرف تسکین ملحوظ خاطر تھی، بلکہ ماں کے ان پیارے الفاظ کے غلاف ایک چھوٹی سی غیرمحسوس بغاوت بھی۔
سگریٹ کا آوارہ جگنو ہوا میں گھومتا رہا۔ گھمنڈی اب ایک اور دستک دینا چاہتا تھا لیکن اسے خود ہی اپنی احمقانہ حرکت پر ہنسی آ گئی۔ وہ لوگ بھی کتنے احمق ہوتے ہیں، اس نے کہا، جو ہرمناسب اور نامناسب جگہ اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب انھیں کسی جگہ پہنچنا ہوتا ہے تو وقت کی ساری کسر سائیکل کے تیز چلانے، یا بھاگ بھاگ کر جان ہلکان کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ اور یہ سوچتے ہوئے گھمنڈی نے سگریٹ کا ایک کش لگایا اور دروازہ کے ایک طرف نالی کے قریب دبک گیا۔
دھوبیوں کی کٹڑی میں اگا ہوا گوندی کا درخت پچھوا کے سامنے جھک گیا تھا۔ جھکاؤ کی طرف، ٹہنیوں میں چاند کی ہلکی سی پھانک الجھی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ماں نے ضرور آج گلے میں دوپٹہ ڈال کر دوپٹے کی پھوئیں ایکم کے چاند کی طرف پھینکے ہوں گے۔ اس کے بعد ایکا ایکی سائیں سائیں کی بھیانک سی آواز بلند ہوئی۔ ہوا، چاند کی پھانک اور گوندنی کا درخت مل جل کر اسے ڈرانے والے ہی تھے، کہ ماں نے دروازہ کھول دیا۔
’’ماں۔ ہی ہی۔‘‘ گھمنڈی نے کہا اور خود دروازہ سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس سے ایک لمحہ پہلے وہ اپنے دانتوں کو بھینچ رہا تھا۔
’’آ جاؤ۔‘‘ ماں نے کچھ رکھائی سے کہا۔ اور پھر بولی، ’’آ جاؤ اب ڈرتے کیوں ہو۔ تمھارا کیا خیال تھا، مجھے پتہ نہیں چلے گا؟‘‘
گھمنڈی کو ایک معمولی بات کا خیال آیا کہ ماں کے منھ میں ایک بھی دانت نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’کس بات کا پتہ نہیں چلے گا؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ ماں نے دیے کی بے بضاعت روشنی میں سر ہلاتے اور چڑاتے ہوئے کہا، ’’کس کا پتہ نہیں چلے گا۔‘‘
گھمنڈی کو پتہ چل گیا کہ ماں سے کسی بات کا چھُپانا عبث ہے۔ ماں۔ جو چوبیس سال ایک شرابی کی بیوی رہی ہے۔ گھمنڈی کا باپ جب بھی دروازے پر دستک دیا کرتا، ماں فوراً جان لیتی کہ آج اس کے مرد نے پی رکھی ہے۔ بلکہ دستک سے اسے پینے کی مقدار کا بھی اندازہ ہو جاتا تھا۔ پھر گھمنڈی کا باپ بھی اسی طرح دبکے ہوئے داخل ہوتا۔ اسی طرح پچھوا کے شور کو شرمندہ کرتے ہوئے۔ اور یہی کوشش کرتا کہ چپکے سے سوجائے اور اس کی عورت کو پتہ نہ چلے۔ لیکن شراب کے متعلق گھمنڈی کے ماں باپ میں ایک ان لکھا اور ان کہا سمجھوتہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھ جاتے تھے۔ پینے کے بعد گھمنڈی کا باپ ایک بھی وافر لفظ منھ سے نہ نکالتا اور اس کی ماں اپنے مرد کو پینے کے متعلق کچھ بھی نہ جتاتی۔ وہ چپکے سے کھانا نکال کر اس کے سرہانے رکھ دیتی اور سونے سے پہلے معمول کے خلاف پانی کا ایک بڑا کٹورہ چارپائی کے نیچے رکھ کر ڈھانپ دیتی۔ صبح ہوتے ہی اپنے پلّو سے ایک آدھ سکّہ کھول کر گھمنڈی کی طرف پھینک دیتی اور کہتی،
’’لے۔ اَدھ بلویا لے آ!‘‘
اور گھمنڈی اپنے باپ کے لیے شکر ڈلوا کر اَدھ بلویا دہی لے آتا، جسے پی کر وہ خوش ہوتا، روتا، توبہ کرتا اور پھر ’’ہاتھ سے جنّت نہ گئی‘‘ کو جھُٹلاتا۔ گھمنڈی نے ماں کے منھ سے یہ بات سنی اور خفّت کی ہنسی ہنس کر بولا، ’’ماں! ماں! تو کِتنی اچھی ہے۔‘‘ پھر گھمنڈی کو ایک چکّر آیا۔ شراب پچھوا کے جھونکوں سے اور بھی پُر اثر ہو گئی تھی۔ سگریٹ کا جگنو جو اپنی فاسفورس کھو چکا تھا، دور پھینک دیا گیا اور ماں کا دامن پکڑتے ہوئے گھمنڈی بولا، ’’اور لوگوں کی ماں ان کی بیوی ہوتی ہے، لیکن تو میری ماں ہی ماں ہے۔‘‘
اور دونوں مل کر اس احمقانہ فقرے پر ہنسنے لگے۔ دراصل اس چھوکرے کے ذہن میں بیوی کا نقشہ مختلف تھا۔ گھمنڈی سمجھتا تھا، بیوی وہ عورت ہوتی ہے جو شراب پی کر گھر آئے ہوئے خاوند کی جوتوں سے تواضع کرتی ہے۔ کم از کم رولنگ ملز کے مستری کی بیوی، جس کے تحت گھمنڈی شاگرد تھا، اپنے شرابی شوہر سے ایسا ہی سلوک کیا کرتی تھی اور اس قسم کے جوتی پیزار کے قصّے آئے دن سننے میں آتے ہیں۔ پھر کوئی ماں بھی اپنے بیٹے کو اس قسم کی حرکت کرتے دیکھ کر اچھّا سلوک نہیں کرتی تھی۔ بخلاف ان کے گھمنڈی کی ماں، ماں تھی۔ ایک وسیع و عریض دل کے مترادف، جس کے دل کی پہنائیوں میں سب گناہ چھپ جاتے تھے۔ اور اگر گھمنڈی کے اس بظاہر احمقانہ فقرے کی اندرونی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کی متناقص شکل میں گھمنڈی کی ماں اپنے شوہر کی بھی ماں تھی۔
بستر پر دھم سے بیٹھتے ہوئے گھمنڈی نے اپنے ربڑ کے جوتے اتارے۔ یہ جوتے سردیوں میں برف اور گرمیوں میں انگارہ ہو جاتے تھے۔ لیکن ان جوتوں کو پہنے ہوئے کون کہہ سکتا تھا کہ گھمنڈی ننگے پاؤں گھوم رہا ہے۔ گھمنڈی نے ہمیشہ کی طرح جوتے اتار کر گرم کرنے کے لیے چولھے پر رکھ دیے۔ ماں پھر چلاّئی، ’’ہے، مرے تیری ماں بھگوان کرے سے۔ ہے۔ گور بھوگ لے تُو کو۔‘‘
لیکن ہندو دھرم بھرشٹ ہوتا رہتا۔ ماں جوتے اتار کر دور کونے میں پھینک دیتی۔ پھر بکتی جھکتی اپنے دامن میں ایک چونی باندھ گھمنڈی کے سرہانے پانی کا ایک بڑا سا کٹورہ رکھ، متعفن بستر کی آنتوں میں جا دبکتی۔
حد ہو گئی۔ ماں نے دو تین مرتبہ سوچا۔ گھمنڈی نے بنواری اور رسید کی سنگت چھوڑ دی ہے۔ اس نے گھمنڈی کو شراب پینے سے منع بھی نہیں کیا اور نہ اپنے اوباش سنگی سنگاتی کے ساتھ گھومنے سے۔ ماں نے سوچا شاید یہ نرمی کے برتاؤ کا اثر ہے۔ لیکن وہ ڈر گئی اور جلد جلد ہلاس کی چٹکیاں اپنے نتھنوں میں رکھنے لگی۔ اپنے آپ کو مارنے کا اس کے پاس ایک ہی ذریعہ تھا۔ ہلاس سے اپنے پھیپھڑوں کو چھلنی کر دینا۔ لیکن اب ہلاس کا کوئی بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اسی نرمی سے ماں نے اپنے شوہر کا منھ بھی بند کر دیا تھا۔ اس کی شخصیت کو کُچل دیا تھا اور وہ بے چارہ کبھی اپنی عورت کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اسی طرح گھمنڈی بھی اپنی ماں کے ساتھ ہم کلام ہونے سے گھبراتا تھا۔ ماں نے اس بات کو محسوس کیا اور پھر وہی۔ ’’تیری ماں مرے بھگوان کرے سے۔‘‘ لیکن اس بات کا اسے کوئی حل نہ سوجھ سکا۔
آج پھر چھ بجے شام گھمنڈی کارخانے سے لوٹ آیا، حالاں کہ وہ نتھوا چوکیدار کی آواز کے ساتھ محلّے میں داخل ہوتا تھا۔ اس سے پہلے وہ کوئی پُرانی تصویر دیکھنے چلا جاتا۔ وادیا کی مس نادیا کے گیت گاتا اور ایک دو سال سے اس کے پُراسرار طریقے سے غائب ہو جانے کے متعلق سوچتا۔ آج پھر اتنی جلدی لوٹ آنے سے ماں کے دل میں وسوسے پیدا ہوئے۔ اس نے بیکار ایک کام پیدا کرتے ہوئے کہا، لے تو بیٹا۔ زیرہ لے آ تھوڑا۔‘‘
’’زیرہ؟‘‘ گھمنڈی نے پوچھا، ’’دہی کے لیے ماں؟‘‘
’’اور تو کا تمھارے سر پہ ڈالوں گی۔‘‘ ماں نے لاڈ سے کہا اور ضرورت سے وافر پیسے دیتی ہوئی بولی، ’’لو یہ پیسے، ٹھیٹر دیکھنا۔‘‘
’’میں سینما نہیں جاؤں گا ماں۔‘‘ گھمنڈی نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’یہی سیرتماشہ تو ہم لوگوں کو خراب کرتا ہے۔‘‘
ماں حیران ہو کر اپنے بیٹے کا منھ تکنے لگی۔ ’’ابھی خیر سے ہاتھ پاؤں بھی نہیں کھلے۔ اتنی دانس کی باتیں کرنے سے نجر لگ جائے گی رے۔‘‘ اور دراصل وہ اپنے بیٹے کو ایک شرابی دیکھنا چاہتی تھی۔ نہیں شرابی نہیں، شرابی سے کچھ کم، جس سے تباہ حال نہ ہو جائے کوئی۔ لیکن یہ بھل منسیت بھی ماں کو راس نہ آتی تھی۔ اس نے کئی عقل مند بچے دیکھے تھے جو اپنی عمر کے لحاظ سے زیادہ عقل مندی کی باتیں کرتے تھے، اور انھیں ایشور نے اپنے پاس بلا لیا تھا۔
گھمنڈی زیرہ لانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پیسے لے کر دروازے تک پہنچا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے دروازہ کے باہر جھانکا۔ ایک قدم باہر رکھا، پھر پیچھے کی جانب کھینچ لیا اور بولا، ’’باہر چچی کھڑی ہے اور منسی بھی ہے۔‘‘
’’تو پھر کا؟‘‘ ماں نے تیوریوں کا ترشول بناتے ہوئے کہا۔
’’پھر کچھ ہے‘‘ گھمنڈی بولا، ’’میں ان کے سامنے باہر نہیں جاؤں گا۔‘‘
ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’تو نے منسی کا کنٹھا اتار لیا ہے، جو باہر نہیں جاتا؟‘‘
لیکن گھمنڈی باہر نہ گیا۔ ماں منھ میں دوپٹہ ڈال کر کھڑی ہو گئی۔ ماں منھ میں دوپٹہ اس وقت ڈالا کرتی تھی جب کہ وہ نہایت پریشان یا حیران ہوتی تھی۔ اور اپنے کلیجے میں مُکّہ اس وقت مارا کرتی تھی جب کہ بہت غمگین ہوتی۔ اس سے پہلے تو گھمنڈی کسی سے شرمایا نہیں تھا۔ وہ تو محلے کی لونڈیوں میں ڈنڈ پیلا کرتا تھا۔ عورتوں کے کولھوں پر سے بچّے چھین لیتا اور انھیں کھلاتا پھرتا۔ اور اسی اثناء میں عورتیں گھر کا دھندا کر لیتیں اور گھمنڈی کو دعائیں دیتیں۔ اور آج وہ منسی اور چچی سے بھی جھینپنے لگا تھا۔
گھمنڈی نے واپس آتے ہوئے اپنے باپ کے زمانے کا خریدا ہوا ایک پھٹا پُرانا موم جامہ نیچے بچھایا، اور ایک ٹوٹا ہوا شیشہ اور رال سامنے رکھ کر ٹانگیں پھیلا دیں۔ ٹانگوں پر چند سخت سے پھوڑوں پر اس نے رال لگائی اور پھر شیشے کی مدد سے منھ پر رسنے والے پھوڑے سے پانی پونچھنے لگا اور پھر اس پر بھی مرہم لگا دی۔ ماں نے اپنی دھُندلی آنکھوں سے منھ والے پھوڑے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا، ’’ہائے، کتنا کھُون کھراب ہو گیا ہے تمھارا۔‘‘ اور پھر کرنجوا اور نیم کے نسخے گنانے لگی۔
اس وقت تک رات ہو گئی تھی۔ رال لگانے کے بعد گھمنڈی موم جامے پر ہی دراز ہو گیا اور لیٹتے ہی اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ آج ماں کو بھی جلدی سوجانے کا موقع تھا، لیکن وہ اونچے مونڈھے پر جوں کی توں بیٹھی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ بستر میں جا دبکنے پر وہ نسبتاً بہتر رہے گی، لیکن ایک خوشگوار تساہل نے اسے مونڈھے کے ساتھ جکڑے رکھا اور وہیں سکڑتی گئی۔ اس کا بڑھاپا اس میٹھی نیند کے مانند تھا جس میں پڑے ہوئے آدمی کو سردی لگتی ہو اور وہ اپنی ٹانگیں سمیٹ کر کلیجے سے لگاتا چلا جائے۔ لیکن پاؤں میں پڑے ہوئے لحاف کو اٹھانے کے لیے ہِل نہ سکے۔
ایکا ایکی ماں چونکی۔ اسے اپنے بیٹے کی خاموشی کا پتہ چل گیا تھا۔ اس نیم خوابی میں بڑے بڑے راز کھُل جاتے ہیں۔ ماں نے کلیجے میں مارنے کے لیے مُکاّ ہَوا میں اٹھایا، لیکن وہ وہیں کا وہیں رک گیا اور وہ پھر ایک حسین غشی میں کھو گئی۔ لیکن اسے گھمنڈی اور اس کے ساتھ اس کا باپ یاد آتا رہا اور اس کی خشک آنکھوں میں داستانیں چھلکنے لگیں۔ ہوا کے ایک جھونکے سے دروازے کے پٹ کھُل گئے اور ایک سرد بگولے کے ساتھ باہر سے گوندی اور بِل کے پتّے، گلی میں بکھرے ہوئے کاغذوں کے ساتھ اڑ کر اندر چلے آئے۔ ایک سوکھا ہوا بِل کہیں سے لڑھکتا ہوا دہلیز میں اٹک گیا۔ گھمنڈی نے اٹھ کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن بِل کو نکالے بغیر کامیابی نہ ہوئی۔
گوندی کے شور اور جھینگروں کی آواز نے ماں کے خون کو اور منجمد کر دیا۔ شمع دان میں دِیے کا شعلہ اور متوازی ہو رہا تھا۔ گھمنڈی نے کہا، ’’بستر پر لیٹے گی ماں؟‘‘ لیکن ماں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ گھمنڈی نے سر ہلا کر ماں کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا اور جوں کا توں کھاٹ پر رکھ اوپر لحاف دے دیا۔ ماں کو خود پتہ نہیں تھا کہ اگر وہ وہیں پڑی رہتی تو صبح تک سردی سے اکڑ جاتی۔ پھر وہ کبھی سیدھی نہ ہوتی اور وہیں ختم ہو جاتی۔
ماں کو بازوؤں میں اٹھائے ہوئے شاید گھمنڈی نے کچھ بھی محسوس نہ کیا، لیکن ماں نے بڑا حظ اٹھایا اور اس کے بعد لحاف کی گرمی و نرمی نے اس کو حظِ اکبر میں تبدیل کر دیا۔ کبھی ماں نے بیٹے کو گود میں اٹھا یا تھا۔ ماں نے سوچا اور پھر ہلاس کی ایک چٹکی نتھنے میں رکھ کر اس نے زور سے سانس لیا۔ وہ حظ کی اس سطح پر آ چکی تھی جہاں مر کر انسان اس خوشی کو دوام کرنا چاہتا ہے۔ آج اس کے بیٹے نے اسے گودی میں اٹھایا تھا اور اسے بستر کی قبر میں رکھ دیا تھا۔ وہ بستر جو قبر ہو نہ سکا۔ دنیا میں کوئی عورت ماں کے سوا نہیں۔ اگر بیوی بھی کبھی ماں ہوتی ہے تو بیٹی بھی ماں۔ تو دنیا میں ماں اور بیٹے کے سوا، اور کچھ نہیں۔ عورت ماں ہے اور مرد بیٹا۔ ماں کھلاتی ہے اور بیٹا کھاتا ہے۔ ماں خالق ہے اور بیٹا تخلیق۔ اس وقت وہاں ماں تھی اور بیٹا۔ ماں، بیٹا۔ اور دنیا میں کچھ نہ تھا۔
ماں بدستور خواب اور بے خوابی کے درمیان معلق تھی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی، لیکن اس کے تخیّل کی شکلیں بے قاعدہ ہو کر خواب کے ایک اندھیرے جوہڑ میں ڈوب رہی تھیں۔ اس کے گاؤں کے چند مکان اس کی گلی میں آئے تھے، لیکن کسی پراسرار طریقے سے ان مکانوں کے پیچھے بھی وہی دھوبیوں کا محلّہ آباد تھا۔ وہاں بھی وہی بِل اور گوندی کے درخت۔ سائیں سائیں کر رہے تھے۔ اماوس کی رات کاجل ہو رہی تھی اور بیٹے کا چاند ان ظلمتوں کو پاش پاش کر رہا تھا۔ اس کا شوہر، جسے وہ غلطی سے مرا ہوا تصور کرتی تھی، زندہ تھا اور اس سے صبح کے وقت ’’اَدھ بلوئے‘‘ کی کٹوری مانگ رہا تھا۔ اسے پیاس لگی تھی۔ ایک نہ پی ہوئی شراب کے نشہ سے اسے بری طرح اعضاء شکنی ہو رہی تھی، لیکن اس کا خاوند تو مر چکا تھا۔ دس سال ہوئے مر چکا تھا۔ مرے ہوئے آدمی کو کوئی چیز دینا گھر میں کسی اور متنفس کو خدا کے گھر بھیج دینے کے مترادف ہے، لیکن وہ انکار نہ کرسکی۔ وہ بیوی تھی اور ماں۔ اس نے اپنے شوہر کے منھ کے ساتھ لگا ہوا کٹورہ چھین لیا، لیکن کیوں؟ اس کا شوہر مرا تھوڑے ہی تھا۔ وہ سامنے کھڑا تھا۔ وہی کٹا ہوا سا ہونٹ جس میں <