Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پریم کی چوڑیاں

اعظم کریوی

پریم کی چوڑیاں

اعظم کریوی

MORE BYاعظم کریوی

    نورپور گنگا جی کے کنارے الہ آباد کے ضلع میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ پنڈت گردہاری لال اس گاؤں کے زمیندار تھے۔ راماشنگر ان کا اکلوتا لڑکا تھا۔ کھیتی باڑی میں بڑی برکت تھی۔ گھر میں غلہ کاانبار لگا رہتا تھا۔ کسی بات کی کمی نہ تھی۔ پنڈت رام لال کا لڑکا رام جیاون ذات کا برہمن تھا۔ کسی زمانہ میں اس کے خاندان میں بھی لکشمی دیوی کا راج تھا۔ لیکن غدر میں ان کا خاندان تباہ ہوگیا۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو وہ یتیم تھا۔ پنڈت گردہاری لال نے اس کی پرورش کی اور بڑے ہوتے ہی اپنے یہاں پیادوں میں نوکر رکھ لیا۔ رام جیاون بڑا کسرتی پہلوان تھا۔ گو اس کی عمر ۴۰ سال سے کچھ زیادہ ہو گئی تھی پھر بھی نور پورکا تو کیا ذکر آس پاس کے گاؤں میں بھی اس کی جوڑ کا کوئی دوسرا پہلوان نہ تھا۔ پنڈت گردہاری لال کے یہاں چار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ ہرفصل پر دس بارہ من اناج بھی مل جاتا تھا۔ گھر میں ایک اچھی ذات کی گائے تھی اس کے لیے بھوسہ آسامیوں سے مل جاتا تھا۔ جب پنڈت رام جیاون اکھاڑے میں ڈنڈپیل کر صبح کو اپنی گائے کا تازہ دودھ پی کر لمبی پگڑی باندھے ہوئے اور الٰہ آبادی موٹی لاٹھی کندھے پر رکھ کر گاؤں میں آسامیوں سے لگان وصول کرنے چلتے تو رعب چھا جاتا جو کام کسی اور پیادہ سے نہ ہوتا تو اسے رام جیاون مہراج کے سپرد کیا جاتا۔ گھر میں ان کی بیوی درگا اور ایک لڑکی پریم پیاری کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

    رام شنکر اور پریم پیاری میں ایک سال کی چھوٹائی بڑائی تھی۔ راماشنکر کی پیدائش کے ایک سال کے بعد رام جیاون مہراج کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو راماشنکر کی ماں تییا نے لڑکی کا نام پریم پیاری رکھا۔ گاؤں میں ایسے نام کم رکھے جاتے ہیں لیکن زمینداروں کا نام رکھا ہوا کیسے بدلتا۔ پھر بھی رام پیاری کو لوگ پیار میں پریما کہنے لگے۔

    راماشنکر اور پریما پچپن ہی سے ایک جگہ اٹھے بیٹھے کھیلے کودے اور گروجی کے یہاں ایک ساتھ پڑھے۔ بھلا ان میں محبت کیوں نہ ہوتی۔ صبح کے وقت خاک دھول میں لت پت ہوکر گھروندے بنانا دونوں کا ایک نہایت پرلطف کھیل تھا۔ نور پور کے پرفضا میدان میں گنگا جی کے کنارے گڑیوں کا میلہ لگتا تو گریاں اپنے سسرال جاتیں۔ پریما ہاتھ پاؤں میں مہندی رچاتی، اپنی گڑیوں کو گہنے کپڑے سے سجاکر بدا کرتی۔ گنگاجی کے کنارے جاتی تو راما بھی ساتھ جاتا اور جب پریما اپنی خوبصورت گڑیوں کو پانی میں پھینکتی تو راما اپنی خوش رنگ نیم کی چھڑی سے پریما کی گریوں کو پیٹتا اور خوب خوش ہوتا۔ بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کھیل ہی کھیل میں دونوں میں لڑائی ہوئی کوسا کاٹا مارا پیٹا اور پھر تھوڑی دیر میں ملاپ ہو گیا۔ پریما کے روٹھنے پر راما اس کی دل جوئی کرتا اور جب راما بگڑتا تو پریما اس کو منا لیتی۔ اسی طرح ہنسی خوشی میں بچپن کا کھیل ختم ہو گیا اور دونوں نے بہار عمر کے سہانے سبزہ زار میں قدم رکھا۔ پنڈت گردہاری لال کے ایک چچیرے بھائی گلزاری لال الہ آباد میں وکیل تھے۔ انھیں کے پاس راما کو انگریزی پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ الہ آباد جانے سے پہلے جب راما پریما سے ملا تو پریما نے کہا، ’’راما۔ دیکھو الہ آباد جاکر مجھے بھول نہ جانا۔‘‘

    ’’پریما تیرا کدھر خیال ہے، میں تجھے بھول سکتا ہوں۔ میں جب الہ آباد سے آؤں گا تو تیرے لیے بڑی اچھی اچھی چیزیں لاؤں گا۔‘‘ الہ آباد سے کب آؤگے۔ ’’مہینہ میں ایک مرتبہ ضرور آؤنگا۔‘‘

    جب راما رخصت ہونے لگا تو اس نے دیکھا کہ پریما کی کنول کی سی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ہیں اس نے کہا پریما تو روتی کیوں ہے۔ پریما نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے جلدی سے اپنے آنچل سے آنسو پونچھ ڈالے اور بغیر کچھ کہے سنے اپنے گھر کے اندر بھاگ گئی۔

    راما جب نورپور ایسے چھوٹے گاؤں سے نکل کر الہ آباد ایسے بڑے شہر میں پہنچا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ اپنے چچا کی عالیشان کوٹھی دیکھ کر راما کی نظر میں اپنے نورپور والے کچے مکان کی وقعت نہ رہ گئی۔ اس کا الہ آباد میں اتنا جی لگا کہ وہ عرصہ تک نور پور نہ گیا۔ اپنے نئے دوستوں سے مل کر وہ پریما کو بھول گیا۔ اس کے چچا نے اس کے لیے کوٹ پتلون اور انگریزی جوتہ بنوا دیا۔ وہ فٹن پر سوار ہوکر شام کو خسرو باغ کی سیر کرتا۔ ادھر تو راما شہر کی دلچسپیوں میں اپنی دیہاتی زندگی محو کیے تھا اور ادھر نور پور میں پریما اس کی یاد میں تڑپتی رہتی تھی۔ وہ روز شام کی ڈھلتی ہوئی چھاؤں میں اپنے گھر کے سامنے چبوترہ پر بیٹھ کر راما کی راہ دیکھا کرتی۔ بھنگ وار دھمنی کے چہچہوں سے جو قدرتی راگ پیدا ہوتا وہ ایک لمحہ بھر کے لیے بھی اس کو مسرور نہ کر سکتا۔ برسات کے موسم میں جب کالی کالی راتیں سر پر ہوتیں بجلی چمکتی بادل گرجتا۔ مور چنگہارتے۔ جھینگر الاپتے تو راما کی یاد میں پریما کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح جھڑیاں لگالیتیں۔

    خدا خدا کرکے گرمیوں کی چھٹیوں میں پورے ایک سال کے بعد راما الہ آباد سے واپس ہوا۔ جس وقت وہ گاؤں میں پہنچا دن ڈوب رہا تھا اور بھینسیں چراگاہ سے واپس ہو رہی تھیں۔ سورج دیوتا کی سنہری شعاعوں میں گائیں رنگی ہوئی ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے گنگا جی میں چمکتے ہوئے تارے۔ گوالے ’’برہا‘‘ گاتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ کہیں کہیں پر چھوٹے چھوٹے بچے مٹی میں کھیل رہے تھے۔ گاؤں کی بہوئیں گھڑے لیے گنگاجی سے پانی بھرنے جارہی تھیں۔ ان میں سے ایک شوخ اور چنچل عورت نے گھونگھٹ کی اوٹ سے راما کو دیکھ کر اپنی ایک سہیلی سے کہا، ’’اری! دیکھ تو یہ کون کرسٹان کا بچہ آ گیا ہے‘‘ اس کی سہیلی نے غور سے راما کو دیکھ کر کہا، ’’یہ تو راما ہے، کیا تو نہیں جانتی یہ ہمارے زمیندار کا لڑکا ہے۔‘‘ ارے یہ وہی راما ہے جو دھوتی کرتا پہنے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا پھرتا تھا، میں نے بالکل نہیں پہچانا تھا اور پہچانتی کیسے آج تو یہ انگریزی کپڑے پہن کر آیا ہے۔‘‘

    دیہاتی زندگی میں ایک برادرانہ انس ہوتا ہے جو شہری زندگی میں نہیں پایا جاتا۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے، امیر و غریب سب اسی رشتہ میں بندھے رہتے ہیں۔ چنانچہ راما کے آنے کی خبر پاکر جگدیو لوہار، پھلی بنیا، رمضان جولاہہ، جگروا دھوبی، کالکا کاچھی، ادھین اہیر، رام جیاون مہاراج وغیرہ راما کو دیکھنے آئے اور دعا دے کر چلے گئے۔

    گاؤں میں بیٹھ کر راما کو پریما کی یاد آئی۔ رات تو کسی طرح سے اس نے بسر کی لیکن صبح اٹھتے ہی وہ اس کے مکان پر پہنچا۔ رام جیاون گنگا اشنان کرنے گئے ہوئے تھے۔ درگا دھان کوٹ رہی تھی، راما نے کہا، ’’موسی! پرنام۔‘‘

    کون! راما! جیتے رہو بھیا، بھگوان تمہیں بنائے رکھیں، آؤ آؤ اچھے تو رہے، یہ کہتی ہوئی درگا نے آواز دی پریما! ارے او پریما۔ دیکھ تیرے راما بابو آئے ہیں۔ ان کو بیٹھنے کے لیے کچھ آسن تو دے۔ پریما چوکے میں دودھ گرم کر رہی تھی ماں کی آواز سن کر وہ جلدی سے اٹھی اور ایک کھٹولہ لاکر بچھا دیا۔ راما کو خیال تھا کہ پریما سامنے آتے ہی خوب گھل مل کر باتیں کرےگی۔ اس سے الہ آباد کاحال پوچھےگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریما بدن چرائے آنکھیں نیچی کیے ہوئے آئی اور کھٹولہ بچھاکر پھر چوکے میں واپس چلی گئی۔ راما نے درگا سے کہا، ’’موسی! پریما بھاگ کیوں گئی، مجھ سے باتیں کیوں نہیں کرتی۔‘‘

    درگا نے چلاکر کہا پریما کہاں چلی گئی، ذرا ایک گلاس دودھ اور ملائی تو ڈال کر بھیا کو کھلا دے (ہنس کر) پریما بڑی پگلی ہے تم کو جو سال بھر کے بعد دیکھا تو سامنے آتے ہوئے شرماتی ہے۔ دیہاتی لڑکیاں بڑی ناسمجھ ہوتی ہیں۔ راما۔’’موسی میں بھی تو دیہاتی ہوں‘‘۔ درگا۔ بھیا تمہاری اور بات ہے تمہارا اور پریما کامقابلہ ہی کیا۔ تم پڑھے لکھے ہو، لیکن پریما تو بالکل گنوار ہے۔ بس وہی تمہارے ساتھ گروجی سے کچھ ہندی کتابیں پڑھی تھیں، کیا اتنے ہی سے وہ سمجھ دار ہو گئی۔ نہیں بھیا نہیں، وہ بڑی جاہل ہے۔ دیکھو نہ کئی مرتبہ پکار چکی ہوں لیکن ابھی تک دودھ لے کر نہیں آئی۔‘‘

    راما نے اٹھ کر کہا، اچھا تو موسی میں خود ہی اس کے پاس جاتا ہوں۔ دیکھوں تو وہ مجھ سے کیوں نہیں بولتی ہے۔ یہ کہتا ہوا راما چوکے میں گھسا اور درگا ہنس ہنس کر لوٹ گئی۔ ’’ہاں بھیا ہاں تو ضرور پریما کو ٹھیک بنائےگا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے درگا نے پھر اپنا موسل اٹھایا اور دھان کوٹنے لگی۔ جب راما چوکے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پریما ایک گلاس میں دودھ لیے ہوئے سر جھکائے چپ چاپ کھڑی ہے۔ راما نے ہنس کر کہا، اوہو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا مجھے پہچانتی ہی نہیں۔ کہو اچھی تو رہیں۔‘‘ پریما نے دودھ سے بھرا ہوا گلاس اور ایک لٹیا میں جل بھر کر راما کے سامنے رکھ دیا اور پھر دیوار کا سہارا لے کر ایک طرف کو چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ لیکن کن انکھیوں سے راما کو دیکھتی جاتی تھی۔ راما نے کہا، ’’نہ نہ پریما اس طرح سے کام نہیں چلےگا، جب تک تم نہ بولوگی میں تمہارے یہاں کوئی چیز نہ کھاؤں گا۔ تھوڑی دیر انتظار کرکے جب راما نے دیکھا کہ اس کا بھی کوئی جواب پریما نے نہیں دیا تو اس نے اداس ہوکر کہا، اچھا پریما نہ بولو۔ جب تم میری بات کا جواب نہیں دیتیں تو میں اب جاتا ہوں۔ یہ کہتا ہوا راما اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت لجائی ہوئی پریما نے ایک عجیب انداز سے کسمساکر دھیمی آواز میں کہا، ’’ہائے راما۔ تم تو نہ جانے کیا کہتے ہو‘‘۔ راما کھلکھلاکر ہنس پڑا۔ پریما کی آواز نے اس کا غنچۂ دل کھلا دیا۔ اب اس نے دودھ پی لیا اور ہنستا ہوا چوکے سے باہر نکل کر کہنے لگا موسی، آخرکار میں نے پریما سے بات چیت کر ہی لی۔ اس کی ضد میں نے توڑ دی۔ درگا نے خوش ہوکر کہا وہ تمہارے ساتھ بچپن سے کھیلتی آئی ہے کہاں تک شرما سکتی ہے۔

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے راما نے کہا، ’’اوہو میں ایک بات بھول ہی گیا موسی، یہ دیکھو پریما کے لیے ایک جوڑہ چوڑیوں کا لایا ہوں۔ پریما کو دے دینا۔‘‘ چوڑیوں کو دیکھ کر درگا بہت خوش ہوئی۔ چوڑیاں تھیں تو کانچ کی لیکن اس قسم کی قیمتی اور خوبصورت چوڑیاں اس وقت تک گاؤں میں کسی کو نصیب نہ ہوئی تھیں۔

    درگا کے بلانے پر پریما چوکے سے باہر نکلی۔ ’’دیکھ راما تیرے لیے کتنی خوبصورت چوڑیاں لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے درگا نے چوڑیاں پریما کی طرف بڑھائیں۔ پریما نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان کو لیا اور دزدیدہ نگاہوں سے راما کی طرف دیکھا۔ زبان سے تو اس نے کچھ نہ کہا لیکن شرمیلی آنکھوں نے سوال کیا، کیوں جی! یہ چوڑیاں کانچ کی ہیں یا پریم کی؟‘‘ راما نے بھی اس کا مطلب سمجھ لیا اور اشاروں میں جواب دیا، ’’یہ پریم کی چوڑیاں ہیں۔‘‘

    آسمان نے کروٹ لی، زمین نے موسم پلٹے اور دیکھتے ہی دیکھتے ۵برس گزر گئے۔ اس دوران میں پنڈت گردہاری لال اور مہاراج رام جیاون بیکنٹھ سدھارے۔ راما اب ایک وجہیہ لحیم شحیم جوان تھا۔ اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور اس نے اپنی زمینداری کا کام سنبھالا۔ لین دین بہی کھاتہ اس کے ہاتھ میں آیا تو اس کے مزاج میں رعونت پیدا ہو گئی۔ سب نشوں سے زیادہ تیز زیادہ قاتل ثروت کا نشہ ہے۔ راما اس نشہ میں بیخود ہو گیا اور اپنے کاروبار میں اتنا منہمک ہوا کہ وہ لڑکپن کی محبت کو پریما کے پریم کو رام جیاون مہاراج کی وفاداری کو بالکل بھول گیا۔ اس نے ایک دن بھی بھولے سے بھی خبر نہ لی کہ یتیم پریما اور دکھیا درگا کی کیسی گزر رہی ہے۔

    رام جیاون مہاراج کے کوئی جائداد تو تھی نہیں جس سے درگا کی چین سے بسر ہوتی۔ مہاراج کے مرنے پر دس بیس روپے گھر میں تھے وہ بھی انہیں کی کریا کرم میں ختم ہو گئے۔ صرف ایک گائے گھر میں تھی ماں بیٹی کی زندگی کااب ایک یہی سہارا تھا۔ اس کا دودھ بیچ کر ان کی بسراوقات ہوتی۔ کبھی کبھی فاقے بھی کرنا پڑتے۔ اسی حالت میں ایک دن درگا نے پریما سے کہا، ’’جی میں آتا ہے کہ اپنی مصیبت کا حال راما بابو سے جاکر کہوں، کیا وہ ایسی حالت میں ہماری مدد نہ کریں گے۔‘‘

    پریما نے اداس ہوکر جواب دیا، ’’نہیں اماں ان کےپاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ کیوں؟ ’’جب ان کو خود خیال نہیں ہے تو ہمارے کہنے سے کیا ہوگا۔‘‘ ایک دن کہہ کر تو دیکھوں، مجھے تو پوری امید ہے کہ وہ ہماری غریبی پر رحم کریں گے۔ کیا تیرے باپ کا بھی ان کو کچھ خیال نہ ہوگا۔‘‘ مہاراج کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ تھوڑی دیر تک دونوں خوب جی بھر کے روئیں جب کچھ جی ہلکا ہوا تو درگا نے کہا، ’’بیٹی تو سچ کہتی ہے میں کسی کے پاس نہ جاؤں گی۔ جب ان کے جیتے جی میں نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے، تو اب ان کے مرنے پر بھیک مانگ کر ان کی آتما کو دکھ نہ پہنچاؤں گی۔‘‘ اس کے بعد پھر دونوں میں اس قسم کی باتیں کبھی نہیں ہوئیں۔ ایک مرتبہ راما کی ماں تلسی نے درگا کو اناج بھیجا بھی لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔

    سال بھر تک جس طرح بھی ہو سکا درگا نے دن کاٹے۔ پھٹے پرانے کپڑوں کو سی کر کسی طرح کام چلایا لیکن برسات میں ایک نئی مصیبت آئی۔ ان کاگھر چھایا نہ گیا تھا، برسات میں کئی دن تک موسلا دھار پانی برسا تو ان کے مکان کا ایک حصہ گر پڑا۔ گائے وہاں بندھی ہوئی تھی، دب کر مرگئی۔ اس نئی مصیبت نے ان پریشانیوں میں اور اضافہ کر دیا۔ گھر میں دو چار چاندی کے جو زیور تھے وہ بھی بک گئے۔ پریما نے راما کی دی ہوئی چوڑیاں ایک کپڑے میں باندھ کر ٹپاری میں رکھ دی تھیں۔ راما کی یہی ایک یادگار تھی۔ پریما نے سوچا کہ اگر وہ ان کو پہنے رہےگی تو ٹوٹ جائیں گی۔ فکر معاش بڑی بری بلا ہے۔ درگا اب کھیتوں اور چراگاہوں سے گوبر اٹھالاتی، پریما اپلے تھاپتی اور درگا گاؤں میں بیچ لاتی۔ کبھی گوبر نہ ملتا تو اور مصیبت ہوتی۔ کبھی کوئی اپلے چرا لے جاتا تو فاقے کرنے پڑتے۔ دنیا کا بھی عجیب حال ہے۔ کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے۔ کسی کا گھر بھرا ہوا ہے کھانے والے نہیں، کوئی رو رو کر زندگی کاٹتا ہے لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔

    راما کی بیسویں سالگرہ کا دن تھا۔ دروازہ پر مردوں اور گھر میں عورتوں کا ہجوم تھا۔ ایک طرف گھی کی اور دوسری طرف تیل کی پوریاں پک رہی تھیں۔ گھی کی معزز موٹے برہمنوں ک