Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزدور

سدرشن

مزدور

سدرشن

MORE BYسدرشن

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘

    سارا دن یوپی کاٹن ملز کمپنی میں مزدوری کرنے کے بعد جب کلو شام کے سات بجے گھر پہنچا، تو سکھیا بخار میں اسی طرح بے سدھ پڑی تھی جس طرح وہ صبح چھ بجے چھوڑ گیا تھا۔ کلو تھکا ماندہ آیا تھا۔ گھر آکر اور بھی اداس ہو گیا۔ آج پندرہ دن سے یہی ہو رہا تھا۔ کاش سکھیا کو ذرا سا بھی افاقہ ہوتا، تو اس کا مرجھایا ہوا چہرہ شگفتہ ہو جاتا اس کی تکان اتر جاتی۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگتیں لیکن سکھیا آج بھی اپنے پھٹے پرانے کمبلوں میں اس طرح بےہوش پڑی تھی، جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ کلو نے اس کے بدن پر ہاتھ رکھ کر دیکھا، پنڈا الاؤ کی طرح گرم تھا۔ اس نے آہ سرد بھری اور سر جھکا کر زمین پر بیٹھ گیا۔

    تھوڑی دیر بعد اس کی بیوہ بہن ردھیا اپنے سوتے ہوئے لڑکے کو لے کر آئی اور اسے پوال پر لٹا کر بولی، ’’بھیا! آج بھی اسی طرح پڑی رہی ہیں۔ رام جانے کسمت میں کیا لکھا ہے؟‘‘

    یہ کہہ کر ردھیانے ایک پھٹا ہوا میلا سا کمبل اٹھایا اور لڑکے پر ڈال دیا۔

    کلو: ’’تم نے دوا تو پلا دی تھی؟‘‘

    ردھیا: ’’دوا کہاں ہے؟ وہ تو رات ہی کھتم ہو گئی تھی۔‘‘

    کلو: ’’مدا بچن لال کی دکان سے لے آتی، تو تمہارے پاؤں نہ دکھنے لگتے۔ جرا سا تو پھاسلہ ہے۔‘‘

    ردھیا اپنے ہاتھ میں پڑے ہوئے چپڑے کے کڑے کی میل کھرچتے ہوئے روکھائی سے بولی، ’’وہ دیتا ہی نہیں۔ کہتا ہے، پہلے ساڑھے گیارہ آنے لاؤ۔ پھر اور ادھار دوں گا۔‘‘

    کلو: ’’جرا منت کر دیتی، تو جرور دے دیتا۔ جبان کا برا ہے، من کا برا نہیں۔ اس دن جاکر میں نے اس سے اپنے دکھ، درد کی دو تین باتیں کی تھیں، تو رونے لگ گیا تھا۔ کہتا تھا، پھکر نہ کرو جو جرورت پڑے مجھ سے مانگو۔ پر تم کو کیا؟ اگر کھیال ہو تو بہت کچھ ہو جاتا ہے۔‘‘

    ردھیا نے آنکھیں نچا کر جواب دیا، ’’ہم سے تو کھوسامد ہوتی نہیں، تمہاری مہیریا بیمار ہے تم بیسک جا کر پیروں میں گر پڑو۔‘‘

    کلو کو یہ بات سن کر آگ سی لگ گئی۔ تڑپ کر بولا، ’’راما کے لئے گڑ لینا ہو، تو لالتا پرساد کی دکان پر جا کر گھنٹوں بیٹھی رہو مگر سکھیا کے لئے دوا لانا ہو تو تمہاری عجت چلی جاتی ہے۔ اتنا بھی کھیال نہیں کہ سارا دن کا رکھنے میں کام کرتا ہے۔ لاؤ جرا کام کر دو! بھائی مجوری کرتا ہے بہن رانی بنی پھرتی ہے۔ پر ٹھیک ہے۔ جو تن لاگے، سو تن جانے بیمار سکھیا ہے۔ تمہیں کیا؟‘‘

    اس وقت کلو کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا، جس میں وہ صبح کے وقت ستوا ڈال کر مل کو لے جاتا تھا۔ اس کے گرد ایک بیحد میلا سا کپڑا بندھا تھا۔ کلو اسے کھولنے لگا۔

    ردھیا بولی، ’’پرمیسر سے دعا کرو۔ راما بیمار ہو جائے تو تمہارا کلیجہ ٹھنڈا ہو۔‘‘

    کلو ڈبہ کو نے میں رکھنے جا رہا تھا۔ بہن کی بات سن کر وہ وہیں سے لوٹ آیا اور اسی طرح ڈبہ ہاتھ میں لئے بولا، ’’دیکھو رودھیا! سام کے بکت ایسی باتیں نہ کرو۔ ہمیں گسا چڑھ گیا۔ تو جبان سے کچھ نکل جائےگا۔ تم سکھیا کو گیر سمجھتی ہو۔ اس کی بد کھائی کرتی ہو۔ ہم راما کو گیر نہیں سمجھتے۔‘‘

    ردھیا: ’’طعنے دینے کو تو بڑے سیر ہو۔‘‘

    کلو: ’’اور تمہاری باتیں کونسی مصری کی ڈلیاں ہیں کہ سن کر جی کھس ہو جائے۔ جب دیکھو۔ تلوار کسے رہتی ہو۔ بھابی بیمار پڑی ہے، تمہیں لڑائی سوجھتی ہے۔ جو سنےگا، تمہیں ہی جھوٹا کہےگا۔ صبح کا گیا اب آیا ہوں۔ کچھ کھلانے کا پھکر نہیں۔ لڑنے کو تیار ہو گئی۔‘‘

    اب ردھیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے سر جھکا لیا اور سکھیا کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بولی ’’تم سے کہہ دیا ہے، کہ بچن لال کی دکان پر جاتے مجھے سرم لگتی ہے۔ جب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے تو یہی جی چاہتا ہے کہ اس کا کھون پی جاؤں۔ مجھے اور جہاں کہو چلی جاؤں، پر اس کی دکان پر نہ بھیجو ورنہ دیکھ لینا کسی دن عجت چلی جائےگی۔‘‘

    یہ کہہ کر ردھیا اپنی کم بختی