مالکن
کہانی کی کہانی
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہوگئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آجاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جاسکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نوسکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتاکر آدھی رات کو رخصت کردیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔
لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیانکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گیے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اترگیے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھالاؤں اگر سرکارکی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلادینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی،
’’تم کیسی باتیں کرنے لگے ہو چودھری گلاب۔ خدا نہ کرے میں اپنی زندگی میں حویلی کے باہر پاؤں نکالوں اور مرنے والے کے نام پر سیاہی لگاؤں۔ کوئی سو برس پہلے، یہیں جہاں اب حویلی کھڑی ہے۔ یہاں رونق پور کاقلعہ تھا۔ اسی گھاگھرا کی موجوں کی طرح انگریزوں کی توپیں آئی تھیں۔ ان سے آگ برسی تھی اورقلعہ جل کر خاک ہو گیا تھا تو کیا ہم بھاگ گیے تھے؟ ہم مٹ گیے تھے۔ سو ہم آج پھر مٹ جائیں گے۔‘‘ چودھری گلاب کھڑے رہے۔ مالکن کے پیچوان کی کڑکڑاہٹ سنتے رہے۔
ہندوستان تقسیم ہوچکا تھا۔ میر محمد علی بیگ مرچکے تھے۔ میر محمد علی بیگ کی بیوہ پر، رونق پور کی ’’مالکن‘‘ پر کسٹوڈین کی مصیبت نازل ہوچکی تھی۔ میر محمد علی بیگ نے نقدی میں چھوڑا ہی کیا تھا؟ اور انھیں کچھ چھوڑنے کو پڑی ہی کیا تھی! نہ آل نہ اولاد ایک میاں بیوی اور اتنی بڑی جائداد۔ مالکن نے گہنے پاتے بیچ کر حکومت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میر محمد علی بیگ پاکستان نہیں قبرستان گیے ہیں۔ برسوں کی مسلسل اور لکھ لٹ یقین دہانی کے بعد ایک رات چودھری گلاب الہ آباد سے یہ پروانہ لائے کہ حکومت نے مان لیا ہے کہ واقعی میر محمد علی بیگ پاکستان نہیں قبرستان ہی گیے ہیں۔ وہ رات عجیب رات تھی۔ مالکن ساری رات جائے نماز پر بیٹھی رہیں۔ ساری رات شکرانے کی نمازیں پڑھتی رہیں۔ عورتیں ساری رات حقے کی چلمیں بھرتی رہیں اور چلمیں سلگ سلگ کر جلتی رہیں اور صبح ہوتے ہی حویلی کے سامنے پٹواری نے ڈگی پیٹ کر زمینداری کے خاتمے کا اعلان کردیا۔
پھر تو جیسے لٹس مچ گئی۔ دور دور تک پھیلی ہوئی زمینیں اور باغ درخت سب کھٹیا بتاشے کی طرح بٹ گیے جیسے بندوق کا فائر ہوتے ہی پرندوں کے غول اڑ جائیں۔ مگر مالکن نے ہمت نہ ہاری۔ چودھری گلاب کو ہدایتیں دے دے کر ان گنت مقدمے لڑاتی رہیں۔ جیسے حضرت محل نے غدر میں فوجیں لڑائی تھیں۔ شکست تو حضرت محل کی طرح رونق پور کی مالکن کو بھی ہوئی۔ لیکن حضرت محل کی طرح رونق پور کی مالکن نے شکست مانی نہیں۔ مگر کب تک؟ ایک ایک کرکے آدمی بکھرنے لگے۔ عورتیں نکلنے لگیں۔ آخر آخر چودھری گلاب نے بھی آناجانا کم کردیا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے تیرے میرے مقدمے لڑانے لگے۔ ہولی دیوالی پر آتے۔ پاؤ آدھ سیر مٹھائی کا دونا نذر میں بھیجتے اور اس طرح وضعداری کو نبھائے جاتے۔ مقدمے جونک کی طرح لگ گیے اور مالکن کاایک ایک قطرہ چوس لیا۔ اندر سے باہر تک سب اجڑ گیا۔ گائے، بیل، شامیانے، چھولداریاں، جاجمیں، قالین، دیغ، پتیلے، کرسی، میزیں، پلنگ پیڑھی سب باورچی خانے کو زندہ رکھنے کے لیے جل کر مرگیے۔
پھر ایک دن جب وہ نماز پڑھ کر اٹھیں، مونج کی پٹاری کے پاندان سے کھجور کی گٹھلیوں کے دو ڈلے اور پتی کی تمباکو کا پھنکا لگایا اور کھنڈر کے اس حصے کی طرف چلیں جو کسی زمانے میں باورچی خانہ کہلاتا تھا۔ بغیر دروازوں کے لمے چوڑے کمرے کے کونے میں لڑھکی ہوئی مٹی کی ہانڈیوں کے منھ دیکھے جو ان کے پیٹ کی طرح خالی تھے۔ گھٹنوں پر ہتھیلیاں جماکرآہستہ آہستہ جھکتی ہوئی وہیں زمین پر بیٹھ گئیں، جیسے جواری سب کچھ ہارکر بیٹھ رہے۔ ان کی لنگڑاتی ہوئی نگاہیں اس سنسان ویران لق و دق کھنڈر میں رینگتی رہیں، جس کی چھتیں گھر چکی تھیں، دھنیاں جل چکی تھیں دروازے بک چکے تھے اور جس کے درودیوار خدمت گزار انسانوں کی مودب پرچھائیوں کے رتجگوں کو ترستے تھے اور شاید ترستے ترستے بھول چکے تھے۔ ان کی بھوکی آنکھوں سے دو میلے میلے آنسو گرے اور پیوند لگے موٹی تنزیب کے کسمیلے دوپٹے میں کھو گیے۔ پھر انہوں نے ایک انجانی آہٹ محسوس کی اور کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ کانپنے لگیں لیکن کانوں سے ٹکراتی ہوئی اس مقدس آواز کو سنتی رہیں جس سے مامتا کا رس ٹپک رہاتھا۔
’’زیب النساء بیگم۔۔۔ تم ان اشراف زادوں کی اولاد ہو جن کی تلوار نے سلطنتوں کی تقدیریں لکھی ہیں اور تخت و تاج کے فیصلے کیے ہیں۔ تم ان درویشوں کی بیٹی ہو جن کے قل نے قرآن شریف نقل کیے ہیں اور پیٹ بھراہے۔ تم تلوار نہیں ہلاسکتیں۔۔۔ تم قلم نہیں اٹھا سکتیں۔۔۔ لیکن تم سوئی تو چلا سکتی ہو۔ تمہارے ہاتھ کے انگرکھے پہن کر میں نے ’’چھتر منزل کلب‘‘ کی میموں کے ساتھ ڈنر اڑائے ہیں اور لنچ کھائے ہیں۔۔۔ کیا کہا تم نے؟ اب انگرکھے کون پہنتا ہے۔۔۔؟ اب اگر انگرکھے نہیں پہنتا تو کوئی نہ کوئی کرتے ضرور پہنتا ہوگا۔ تم کو یاد ہے؟ میں نے لکھنو سے کٹاؤ کے جوکرتے سلوائے تھے ان کی سلائی اس سستے زمانے میں کیا تھی۔۔۔؟ پانچ روپیہ فی کرتا۔۔۔ تم ویسا کرتا دو دن میں سل سکتی ہو۔‘‘
جب وہ اٹھیں تو ان کی بے پناہ بے قراری کو قرار آچکا تھا۔ جیسے ایک بھیانک خواب دیکھ کر جاگ اٹھیں ہوں۔ جیسے سارے دن کی سخت محنت کے بعد ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے خوب دیر تک نہاکر نکلی ہوں۔ وہ بڑے حوصلے سے قدم اٹھارہی تھیں کہ اس طرف سے آواز آئی،