کہانی کی کہانی
سچ کی تلاش میں نکلے ایک ایسے رپورٹر کی کہانی جو ایک ایسے گاؤں میں رپورٹنگ کی لیے جاتا ہے جو حال ہی میں ایک اچھا قصبہ بن کر ابھرا ہے۔ قصبے میں جاکر ہر چیز کی ایمانداری سے تحقیق کی۔ اگلے دن جس صفحہ پر اس کی رپورٹ شائع ہونی تھی، اس صفحہ پر اس کے موت کی خبر شائع ہوئی تھی۔
وہ علاقہ جو صرف ایک سال پیشتر ایک انتہائی پس ماندہ گاؤں سمجھا جاتا تھا، حکومت اور لوگوں کی مشترکہ منصوبہ بندی، ایثار اور محبت سے ایک اچھا خاصا ترقی یافتہ قصبہ بنگیا تھا۔ کھنڈرات کی جگہ ایک منزلہ، دو منزلہ اور کہیں کہیں سہ منزلہ مکانات سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شاندار حویلیاں بھی اپنے مالکوں کےحسن ذوق کا ثبوت دے رہی تھیں۔ سڑکیں، تمام کی تمام تو نہیں۔ ان کی معقول تعداد ہر قسم کی ٹریفک کے قابل ہو گئی تھی۔ کھیتوں میں فصلیں لہرا رہی تھیں۔ قصبے کے بعد حضوں میں کچھ مکان اور جھونپڑیاں بھی نظر آ جاتا تھیں مگر ان کے وجود سے قصبے کی مجموعی ترقی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تھا۔
قصبے کی مجموعی ترقی میں ایک شخص کا بڑا حصہ تھا۔ شہر سے اخباروں کےجو رپورٹر اس قصبے میں آنکھوں دیکھا حال دیکھنے گئے تھے۔ انہوں نے چند روز وہاں ٹھہر کر اپنے اپنے اخباروں کو جو رپورٹیں بھیجیں تھیں ان میں اس قصبے کی ترقی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا اور یہی ترقی کا سرچشمہ حاجی رحیم علی کی ذات کو قرار دیا گیا تھا جن کے پوتے کے نام پر اب اس قصبے کا نام ’خرم آباد‘ مشہور ہو گیا تھا۔
اخبارات کی رپورٹیں پڑھ پڑھ کر شہروں میں رہنےوالے لوگوں کی ’خرم آباد‘ میں دلچسپی لینی کوئی خلاف توقع بات نہیں تھی۔ وہ سمجھنے لگے تھے کہ خرم آباد اسی طرح بارونق ہوتا چلا گیا تو ایک روز یہ قصبہ نہیں رہےگا، شہر بن جائےگا۔
اخباروں میں ’خرم آباد‘ کی ہمہ جہت ترقی و فروغ کی روداد وقفے وقفے سے شائع ہو رہی تھیں مگر ایک ہفت روزہ ایسا بھی تھا جس میں اس سلسلے کی کوئی تحریر نہیں چھپتی تھی۔ اس ہفت روزہ کا نام ’صداقت شعار‘ تھا اور اس کے مالک اور ایڈٹر علی نیاز تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پرچے کاصرف نام ہی صداقت شعار نہیں ہے۔ وہ اپنی پالیسی کے اعتبار سے بھی صداقت شعار ہے۔
تو ایک روز جب پرچے کے آخری صفحات پریس کو بھجوائے جا چکے تھے، علی نیاز کے کمرے میں ان کے اخبار کا رپورٹر مختار احمد کرسی میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور کنکھیوں سے اخبار کے مالک کو بھی دیکھے جا رہا تھا جو کسی خط کا مطالعہ کر رہے تھے۔
خط پڑھ کر انہوں نے کاغذ تہ کرکے ایک فائل میں رکھ دیا اور رپورٹر سے مخاطب ہوئے،
’’مختار صاحب پڑھنے والوں کو ہم سے کچھ شکایت ہے۔‘‘
’’کیا شکایت ہے جناب!‘‘
’’کئی روزناموں اور ہفت روزوں میں خرم آباد کی خبریں چھپ چکی ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں چھاپا۔‘‘
’’یہ تو درست ہے جناب۔‘‘
’’تو کیا سوچتے ہیں آپ!‘‘ علی نیاز نےاپنی چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’میں تو یہی سوچ سکتا ہوں کہ رپورٹنگ کے لیے وہاں چلا جاؤں۔‘‘
اور علی نیاز نے چائے کا لمبا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے اپنے رپورٹر کی سوچ کی تائید کر دی۔
اپنے باس سےگفتگو کرنے اور خرم آباد کے سفر کا پروگرام طے کرنےکے بعد مختار احمد اخبار کی چھوٹی سی لائبریری میں چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک روزنامے کے وہ شمارے شیلف میں سے نکالے جن میں خرم آباد کے بارے میں کچھ رپورٹیں چھپتی تھیں۔
ان رپورٹوں کے مطالعے سے اس نے ضروری معلومات اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں۔ اسے معلوم ہو گیا کہ ’خرم آباد‘ میں ایک سرائے بھی ہے اور ایک ہوٹل بھی۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ سرائے کی بجائے ہوٹل میں قیام کرے گا کہ وہاں نسبتاً سکون مل سکتا ہے اور سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکتا ہے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق پیر کی صبح کو وہ اپنا سوٹ کیس ایک ہاتھ میں اور دوسرے میں کاغذوں اور کتابوں کا ایک بنڈل لے کر لاری اڈے کی طرف چل پڑا۔
مقررہ وقت پر لاری روانہ ہو گئی۔
سفر کے دوران میں وہ کسی نہ کسی کتاب کے پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کر دیتا تھا۔ اس سفر میں بھی اس نے ایک کتاب کا انتخاب کیا، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ ورق گردانی کرنے لگا۔
مارچ کے آخری ہفتے کا پہلا دن تھا۔ بہار کا آغاز ہو چکا تھا۔ فضا میں قدرے خنکی تھی کبھی کبھی کتاب سے نظریں ہٹاکر وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا تھا تو اسے پتوں سے لدی ہوئی پیڑوں کی ڈالیاں ہرے بھرے کھیتوں کی ہریالی اور باغوں میں پھولوں سے لدے ہوئے پودے نظر آ جاتے تھے جو اسے تروتازگی کااحساس دے جاتے تھے۔
تین گھنٹے بیت چکے تھے اور ابھی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ یہ باقی سفر اس نے طرح طرح کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا۔
آخر لاری اڈے پر پہنچ کر رک گئی۔ وہ خرم آباد کے قصبے میں تھا۔
اپنا سوٹ کیس اور کتابوں کا بنڈل سنبھال کر وہ نیچے اترا اور ہوٹل کی تلاش میں ایک طرف چند قدم ہی چلا ہوگا کہ اس نے محسوس کیا کہ دو آدمی اسے بری طرح گھور رہے ہیں۔
’’کون ہیں؟‘‘ اس کے ذہن میں سوال ابھرا مگر اس پر غور کرنے یا اپنی جگہ پر رک جانے کی بجائے وہ ایک طرف چلنے لگا جیسے ان سے بےنیاز ہے۔ دو قدم ہی چلا ہوگا کہ بیک وقگ دو ہاتھ بڑے، ایک ہاتھ نے اس کاسوٹ کیس پکڑنے کی کوشش کی اور دوسرے نے کتابوں کا بنڈل اس کے ساتھ ہی نیلے رنگ کی ٹیوٹاکار اس کے پاس آکر ٹھہر گئی۔ ڈرائیور تیزی سے اترا اور اس نے کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔
مختار کو اس قسم کے واقعے کاکوئی خیال نہیں تھا۔ حیرت سے بولا،
’’کون ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’آپ اخبار ’صداقت شعار‘ کے دفتر سے آئے ہیں؟‘‘ وہ شخص جو مختار کا سوٹ کیس پکڑنے میں کوشاں تھا، ادب اور احترام سے کہنے لگا
’’جی ہاں میں صداقت شعار کا رپورٹر ہوں۔‘‘
’’تو پھر چلیے۔‘‘
مختار نے ابھی تک اپنی چیزیں ان کے حوالے نہیں کی تھیں۔ بڑھے ہوئے ہاتھ سوٹ کیس اور کتابوں کے بنڈل کو چھو رہے تھے۔
’’کہاں چلوں، تعارف تو کرائیے۔‘‘
’’میں سرکار نے بھیجا ہے کہ آپ کو بنگلے میں پہنچا دیں۔ آپ ان کے معزز مہمان ہیں۔‘‘
’’سرکار کون؟‘‘
دونوں ہنس پڑے۔ ان کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ مختار کی بے خبری یا حماقت پر ہنس رہے ہیں۔
’’آپ سرکار سے واقف نہیں۔ حاجی رحیم علی صاحب۔۔۔ آپ نے یہ نام ضرور سنا ہوگا۔‘‘
’’سنا ہے مگر دیکھیے۔۔۔‘‘
مختار اپنا فقرہ مکمل نہ کرسکا۔ ڈرائیور جھٹ بول اٹھا،
’’جناب! خرم آباد میں جو بھی بڑے لوگ آتے ہیں، ہمارے حاجی صاحب انھیں اپنے یہاں ٹھہراتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں تو بڑے لوگوں میں شامل نہیں ہوں۔‘‘
’’جی آپ ہیں جی۔ اخباروں والے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکار ہی انھیں اپنے مہمان بناتے ہیں۔‘‘
ڈرائیور نے کہا،
’’یہ دے دیجیے نا ہمیں گاڑی میں رکھ لیں۔‘‘ ایک بولا۔
’’میں حاجی صاحب کا شکر گزار ہوں۔ لیکن میں یہاں کسی کا مہمان بننے کے لیے نہیں آیا۔‘‘ مختار کے لہجے سے انکار کے باوجود نرمی کا اظہار ہو رہا تھا۔
تینوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
’’مگر یہاں کا یہی طریقہ ہے۔‘‘ ڈرائیور نے گاڑی کے دروازے کو پوری طرح کھول دیا تھا۔
’’میں اس طریقے پر عمل نہیں کر سکتا۔‘‘
’’لیکن سرکار ہم پر خفا ہوں گے۔‘‘
’’ان سے ملاقات ہوگی تو میں خود ہی ان سے معذرت کر لوں گا۔ آپ ان تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔‘‘
وہ دونوں ہاتھ سوٹ کیس اور کتابوں سے ہٹ کرآہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔
’’تو آپ۔۔۔؟‘‘
’’آپ میری فکر نہ کریں۔ میں ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ آپ کی مہربانی ہوگی جو آپ مجھے ہوٹل کا پتا بتا دیں۔‘‘
تینوں اس طرح حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی مختار کی بات سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ مختار انھیں اس حالت میں چھوڑ کر چلنے لگا۔
لوگ آ جا رہے تھے۔ سائیکلوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ تانگوں کی بگیاں بھی تھیں۔ سجی سجائی اور سامان سے بھری ہوئی دکانیں دیکھ کر اسےاحساس ہو رہا تھا کہ ایک نو آباد قصبے میں نہیں۔ اپنے شہر ہی کے ایک بازار سے گزر رہا ہے۔
ایک پنساری کی دکان کے سامنے،ذہن میں اس سوال آ جانے کی وجہ سے وہ رک گیا۔ ’’ہوٹل ہے کہاں؟‘‘ اور اس نے پنساری سے پوچھا۔
’’کیا آپ مجھے ہوٹل کا پتا بتائیں گے!‘‘
’’ضرور۔ ضرور۔ دیکھیے سیدھے چلے جائیے۔ دائیں طرف ایک پھل والے کی دوکان نظر آئے گی۔ اس دکان کے ساتھ جو گلی ہے اس کے آخر میں ہوٹل ہے۔‘‘
مختار نے پنساری کا شکریہ ادا کیا۔ چند منٹ چلنےکے بعد وہ ایک گلی کے اندر، ایک دو منزلہ، پرانی عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔ عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا تھا، ’’خرم ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ۔‘‘
ہوٹل کےایک چھوٹے سے ہال میں کچھ لوگ چائے پی رہے تھے اور ایک کونے میں، میز کے سامنے ہوٹل کا مالک بیٹھا ایک لمبے سے رجسٹر پر جھکا ہوا تھا۔
’’جناب مجھے کمرہ چاہیے۔‘‘
ہوٹل کے مالک نے دوتین لمحے اسے گھور کر دیکھا۔
’’کہاں سے آئے ہیں۔ کیا کام ہے، کب تک قیام کا ارادہ ہے؟‘‘ اور مختار سے اپنے ان سوالوں کے جواب سن کر حیرت زدہ لہجے میں بولا۔
’’آپ اخبار سے آئے ہیں تو سرکار کے مہمان ہوتے۔ کیا ان کے آدمی آپ کو لینے نہیں پہنچےتھے؟‘‘
’’پہنچے تھے۔ میں نے معذرت کر لی تھی۔‘‘
مختار نے محسوس کیا کہ نہ صرف ہوٹل کے ملک کی نظریں اسے حیرت سے دیکھ رہی ہیں دوسرے بھی اسے غور سے تکنے لگے ہیں۔ یہ صورت حال اس کے لیے قدرے پریشان کن تھی اور وہ جلد اس سے نجات پانا چاہتا تھا اس لیے بولا،
’’میں نے کچھ عرض کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ کمرہ خالی ہے۔ اے فیروز۔‘‘ اس نے بلند آواز سے ہوٹل کے بیرے کو پکارا۔
’’صاحب کو اوپر سات نمبر میں لے جاؤ۔‘‘
مختار نے رجسٹر پر دستخط کیے اور بیرے کے ساتھ سیڑھیاں طے کرنے لگا۔
عام سا کمرہ تھا۔ فرش ننگا۔ دیواریں بوسیدہ۔ ایک دیوار کے ساتھ چار پائی بچھی ہوئی۔ پاس ایک میز اور دو دقیا