طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے
تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئی ہے
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں تھک کے سو گئی ہے
مرے خیالوں میں آج بھی خواب عہد رفتہ کے جاگتے ہیں
تمہارے پہلو میں کاہش یاد آستاں تھک کے سو گئی ہے
سحر کی امید اب کسے ہے سحر کی امید ہو بھی کیسے
کہ زیست امید و نا امیدی کے درمیاں تھک کے سو گئی ہے
نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ہوں کہ مجھ کو راہیؔ
خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئی ہے
- کتاب : Rag-e-jan (Pg. 106)
- Author : Ahmad Rahi
- مطبع : Al-Hamd Publication (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.