گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں
گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں
میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں
تری یادوں کے انگاروں کو اکثر
تصور کے لبوں سے چومتا ہوں
کوئی پہچاننے والا نہیں ہے
بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں
مرا قد کتنا اونچا ہو گیا ہے
فلک کی وسعتوں کو ناپتا ہوں
وہ یوں مجھ کو بھلانا چاہتے ہیں
کہ جیسے میں بھی کوئی حادثہ ہوں
بدلتے موسموں کی ڈائری سے
ترے بارے میں اکثر پوچھتا ہوں
مرے کمرے میں یادیں سو رہی ہیں
میں سڑکوں پر بھٹکتا پھر رہا ہوں
ابھرتے ڈوبتے سورج کا منظر
بسوں کی کھڑکیوں سے دیکھتا ہوں
کسی کی یاد کے پتوں کو آزرؔ
ہواؤں سے بچا کر رکھ رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.