سرورق
مادر تھپک تھپک کے سلاتی تھی کرکے پیار
پہلے تو حمد خالق ارض و سما لکھوں
پیدا ہوا تھا قیس جب اپنے پدر کے گھر
اس کے سوائے اور یہ جادو بھرا کنار
استاد ایسے بیٹھے کہ پوجیں وہ عشق کو
یہ چاہتا تھا اس کو اسے وہ لبھاتے تھے
حسن و ادا کا ناز کا دیکھا جو التیام
مجنوں کے دل پہ جب یہ ستمگار یاں ہوئیں
جب شام تک نہ آئے وہ مجنوں کی مہ جبیں
اس گلبدن کے دل میں چھپا ہجر کا جو خار
کتنے دنوں تو قیس رہا دل سنبھالتا
کتنے دنوں تو روز ہی ہمراہ زباں ہوئیں
چھٹی جو ملتی اور تو سب لڑکے لڑکیاں
ہوتی تھی جب سحر تو وہ مکتب میں آتا تھا
پھر گہر میں اپنے جو جاتی وہ محبوب دلربا
جب تک بہ خورد سال تھی چاہت نہاں رہی
جاتی تھی سیر باغ کو جس دم وہ دلربا
مجنوں کا مدتوں تلک ایسا ہی حال تھا
آتا تھا دیکھنے کو جو لیلی کی وہ کبھی
لاتا تھا باپ کھینچ کے اس کو گھڑی گھڑی
کہتے ہیں قیس لڑکوں میں صاحب جمال تھا
ماں باپ نے جب اس کے یہ کچھ دیکھی بے کلی
کہتے ہیں ایک سگ کہیں لیلی نے پالا تھا
کہ کر یہ قیس کو وہ ارادہ جتا دیا
سچ پوچھیے تو رکھتی ہے چاہت بھی کیا مزا
اس کی مثل میں کرتا ہوں یارو جو اب بیان
لیلی بھی اس کی چاہ میں بے اختیار تھی
اس حد پہ چاہ پہونچی تھی دونوں کی داستاں
کہا ہم نے اے سیمبر پری چہرہ مہر پیکر
کہا جو ہم نے ہمیں سے دور کیوں اٹھاتے ہو
لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار کے گل دستوں سے
ہمدم چھپا دے واں کوے کیا دل کی چاہ کو
شور افگن جنوں ہے جس جا نگاہ کرنا
نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
فرشتے دونپہ نہیں مہر تاب میں ہے
مل کر صنم سے اپنی ہنگام دلکشائے
ہوں کیوں نہ تیرے کام میں حیران تماشا
جوش نشاط و عیش ہے ہر جا بسنت کا
تھے آگے بہت جب سے خوش اے یار ہم ہی سےے
میں نہ ہنس کے اس لیے منہ چومتا ہوں غنچہ کا
وقت تو جاتا رہا پر بات باقی رہ گئی
وہ رشک چمن گل جو زیب چمن تھا
دیکھ کر کرتے گلی میں سبز دہانی آپ کی
کب مثل شیشہ ان کا کسی سے بر آئے دل
ہنسے روئے پھرے رسوا ہوے جاکے بندے چھوٹے
وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
کہتے ہیں یہاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں
رخ پری چشم پری زلف پری آن پری
دوستان شرح پریشانی من گوش کنید
اے گل تازہ کہ بوئے زوفانیست ترا
تو پندار کہ مہر ازل پر خون نہ رود
نخل نوخیز گلستان جہاں بسیار ست
مکن آن طور کہ شرمندہ شوم از خونت
مدتے ہست کہ میدانم وتد بیرے نیست
جان من سنگ دلی دل بتودادن غلط ست
مدتے شد کہ در آزارم ومیدانی تو
آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
از سر کوئی تو بادیدہ تر خواہم رفت
جس دن سے ادا مجھ کو اس بت کی لگی پیارے
مخمسات و مسدسات
دکھلا کے جھمک جس کو ٹک چاہ لگا دیجے
آجھمکی عیش و طرب کیا جب حسن دکھایا ہولی نے
لاتی ہے جب اپنا شروعات اندھیری
کیا تاب ہے جو گلرخ نظریں چھپالی ہم سے
ہیں مرد اب وہی کہ جنہوں کا ہے فن درست
جتنے ہیں اب جہاں میں سبزی کے عشق والے
خلق میں کیا کیا مجھے ہے سبزیوں کی ریل پیل
پہل پات کہیں شاخ کہیں پھول کہیں بیل
گاتا ہے کوے شوق میں کرتا ہے کوے حال
سردی کہیں گرمی کہیں جاڑا کہیں برسات
کیا حسن کہیں پایا ہے اللہ ہی اللہ
بیچے ہے جو ہر کوئی زر سیم طلا رانگ
نارے کوئے بادل کوئے خاکی کوئے آبی
تعزیہ کے سامنے ہو کے ادب سے سر جھکا
تاب کسکی ہے جو اس چہرے کے آگے تاب لاے
دنیا میں کوئی خاص نہ کوئی عام رہیگا
در بیان فنائے جہان وبقائے رحمان
منت سے بھلا کب وہ بلاتا ہے کسی کو
دنیا کی جو الفت کا ہو امجھ کو سہارا
چہر ہے ترا انور کی تنویر کا نقشا
قایم ہے جسم گو کہ نہیں کس غنیمت است
نہ ہو کیونکر جہاں یارو زبر اور زیر آندھی میں
در تعریف عید گاہ اکبر آباد
خمسہ در بیان عید
بڑھاپے کی تعریف میں
روپیہ کے تعریف میں
مسدس
خمسہ برغزل خود
کلجگ کے بیان میں
ترکیب بند
ادھر کو جھگڑے اے ہمنشیں وہ یار آیا
مجھے اے دوست تیرا حجاب اب ستاتا ہے
عیاں جو سامنے آکر وہ گلعذار ہوا
ہم اپنی دل کی خوشی کا بیان کریں کیا کیا
ترکب بند ثانی فارسی و ہندی
نہ دل لگے تھا کسی شغل سے کوئی ساعت
غضب ہے ایک تو سمجھے اور جی بھی گھبراوے
کہاں تک کھائے غم اب تو غم کھایا نہیں جاتا
کبھی ہو کر گریبان چاک صحرا کو نکلتا ہوں
ادھر سے مجھے کہتا ہے کہ تو جل یار کے دیرے
مستزاد مثلث
خمسہ برغزل فغان
سامان دوالی کا
عید الفطر کے بیان میں
آگرہ کی ککڑی کی تعریف
مسدس
آٹے دال کا بیان میں
کوڑے کے بیان میں مسدس
پیسے کی عزت میں
برسات کے بیان میں
خمسہ برغزل خود
دربیان رتال و نجومی وغیرہم
آٹے دال کا بیان
پیسے کے بیان میں
ایضاً
خمسہ
ولہ جھونپڑا
ایضاً
بنجارہ نامہ
خمسہ
خمسہ برغزل سعدی
دربیان فراق
موسم زمتان
دربیان تماشاے دنیا
دربیان غنیمت شمردن حسن وجمال
تل کے لڈو
ریچھ کا بچہ
خمسہ برغزل سراج
کورے برتن کی تعریف میں
کوّے اور ہرن کے بچہ کا بیان
ایضاً
آدمی نامہ
ایضاً
تربوز کی تعریف میں
خمسہ برغزل
بیان خواب میں دیکھنے کا
خمسہ برغزل خود
کنکوے اور پتنگ کی تعریف
خوشامد کے بیان میں
در حمد الٰہی
خمسہ برغزل مولانا سعدی
خمسہ
در راز داری محبوب
خمہ ثانی
در بیان شکوہ گزاری محبوب
دربیان عرس حضرت سلیم چشتی
خمسہ
خمسہ برغزل حافظ
دربیان موت
مفلسی نامہ
کیا وہ دلبری کوئےنویلا ہے
بلدیو جی کا میلہ
ہر طرف حسن کی پکاریں ہیں
اتنے لوگوں کے ٹھیٹھ لگے ہیں آ
بسکہ اونڈے ہیں خلقتوں کے دل
آج میلے کا ہے جو یہاں سامان
نازنیں ہیں وہ سانورے گورے
خلق آتی ہے سب جڑی ہے جڑ ہی ہے
کنڈ پر ہی نہاں ہوتے ہیں
ہر طرف گلبدن رنگیلے ہیں
صحن مند کا سب سے ہے اعلی
ہے جو مندر میں آپ وہ لالن
کتنے کچے ہیں کتنے پکے ہیں
کوئے چنچل چلے ہی ٹھمکی چال
بسکہ آتے ہیں راجہ اور رانی
سینکڑوں رنگ رنگ کے چھڑیاں
لگ رہی بھیڑ اس قدر ٹھیٹھ ہو
کیا مچی ہے بہار جے بلدیو
تاج گنج کے روضہ کی تعریف
در تعریف پنجتن پاک
در مدح حضرت سلیم چشتی
دربیان کلمہ محمد ﷺ
سرورق
مادر تھپک تھپک کے سلاتی تھی کرکے پیار
پہلے تو حمد خالق ارض و سما لکھوں
پیدا ہوا تھا قیس جب اپنے پدر کے گھر
اس کے سوائے اور یہ جادو بھرا کنار
استاد ایسے بیٹھے کہ پوجیں وہ عشق کو
یہ چاہتا تھا اس کو اسے وہ لبھاتے تھے
حسن و ادا کا ناز کا دیکھا جو التیام
مجنوں کے دل پہ جب یہ ستمگار یاں ہوئیں
جب شام تک نہ آئے وہ مجنوں کی مہ جبیں
اس گلبدن کے دل میں چھپا ہجر کا جو خار
کتنے دنوں تو قیس رہا دل سنبھالتا
کتنے دنوں تو روز ہی ہمراہ زباں ہوئیں
چھٹی جو ملتی اور تو سب لڑکے لڑکیاں
ہوتی تھی جب سحر تو وہ مکتب میں آتا تھا
پھر گہر میں اپنے جو جاتی وہ محبوب دلربا
جب تک بہ خورد سال تھی چاہت نہاں رہی
جاتی تھی سیر باغ کو جس دم وہ دلربا
مجنوں کا مدتوں تلک ایسا ہی حال تھا
آتا تھا دیکھنے کو جو لیلی کی وہ کبھی
لاتا تھا باپ کھینچ کے اس کو گھڑی گھڑی
کہتے ہیں قیس لڑکوں میں صاحب جمال تھا
ماں باپ نے جب اس کے یہ کچھ دیکھی بے کلی
کہتے ہیں ایک سگ کہیں لیلی نے پالا تھا
کہ کر یہ قیس کو وہ ارادہ جتا دیا
سچ پوچھیے تو رکھتی ہے چاہت بھی کیا مزا
اس کی مثل میں کرتا ہوں یارو جو اب بیان
لیلی بھی اس کی چاہ میں بے اختیار تھی
اس حد پہ چاہ پہونچی تھی دونوں کی داستاں
کہا ہم نے اے سیمبر پری چہرہ مہر پیکر
کہا جو ہم نے ہمیں سے دور کیوں اٹھاتے ہو
لو نہ ہنس ہنس کے تم اغیار کے گل دستوں سے
ہمدم چھپا دے واں کوے کیا دل کی چاہ کو
شور افگن جنوں ہے جس جا نگاہ کرنا
نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
فرشتے دونپہ نہیں مہر تاب میں ہے
مل کر صنم سے اپنی ہنگام دلکشائے
ہوں کیوں نہ تیرے کام میں حیران تماشا
جوش نشاط و عیش ہے ہر جا بسنت کا
تھے آگے بہت جب سے خوش اے یار ہم ہی سےے
میں نہ ہنس کے اس لیے منہ چومتا ہوں غنچہ کا
وقت تو جاتا رہا پر بات باقی رہ گئی
وہ رشک چمن گل جو زیب چمن تھا
دیکھ کر کرتے گلی میں سبز دہانی آپ کی
کب مثل شیشہ ان کا کسی سے بر آئے دل
ہنسے روئے پھرے رسوا ہوے جاکے بندے چھوٹے
وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
کہتے ہیں یہاں کہ مجھ سا کوئی مہ جبیں نہیں
رخ پری چشم پری زلف پری آن پری
دوستان شرح پریشانی من گوش کنید
اے گل تازہ کہ بوئے زوفانیست ترا
تو پندار کہ مہر ازل پر خون نہ رود
نخل نوخیز گلستان جہاں بسیار ست
مکن آن طور کہ شرمندہ شوم از خونت
مدتے ہست کہ میدانم وتد بیرے نیست
جان من سنگ دلی دل بتودادن غلط ست
مدتے شد کہ در آزارم ومیدانی تو
آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
از سر کوئی تو بادیدہ تر خواہم رفت
جس دن سے ادا مجھ کو اس بت کی لگی پیارے
مخمسات و مسدسات
دکھلا کے جھمک جس کو ٹک چاہ لگا دیجے
آجھمکی عیش و طرب کیا جب حسن دکھایا ہولی نے
لاتی ہے جب اپنا شروعات اندھیری
کیا تاب ہے جو گلرخ نظریں چھپالی ہم سے
ہیں مرد اب وہی کہ جنہوں کا ہے فن درست
جتنے ہیں اب جہاں میں سبزی کے عشق والے
خلق میں کیا کیا مجھے ہے سبزیوں کی ریل پیل
پہل پات کہیں شاخ کہیں پھول کہیں بیل
گاتا ہے کوے شوق میں کرتا ہے کوے حال
سردی کہیں گرمی کہیں جاڑا کہیں برسات
کیا حسن کہیں پایا ہے اللہ ہی اللہ
بیچے ہے جو ہر کوئی زر سیم طلا رانگ
نارے کوئے بادل کوئے خاکی کوئے آبی
تعزیہ کے سامنے ہو کے ادب سے سر جھکا
تاب کسکی ہے جو اس چہرے کے آگے تاب لاے
دنیا میں کوئی خاص نہ کوئی عام رہیگا
در بیان فنائے جہان وبقائے رحمان
منت سے بھلا کب وہ بلاتا ہے کسی کو
دنیا کی جو الفت کا ہو امجھ کو سہارا
چہر ہے ترا انور کی تنویر کا نقشا
قایم ہے جسم گو کہ نہیں کس غنیمت است
نہ ہو کیونکر جہاں یارو زبر اور زیر آندھی میں
در تعریف عید گاہ اکبر آباد
خمسہ در بیان عید
بڑھاپے کی تعریف میں
روپیہ کے تعریف میں
مسدس
خمسہ برغزل خود
کلجگ کے بیان میں
ترکیب بند
ادھر کو جھگڑے اے ہمنشیں وہ یار آیا
مجھے اے دوست تیرا حجاب اب ستاتا ہے
عیاں جو سامنے آکر وہ گلعذار ہوا
ہم اپنی دل کی خوشی کا بیان کریں کیا کیا
ترکب بند ثانی فارسی و ہندی
نہ دل لگے تھا کسی شغل سے کوئی ساعت
غضب ہے ایک تو سمجھے اور جی بھی گھبراوے
کہاں تک کھائے غم اب تو غم کھایا نہیں جاتا
کبھی ہو کر گریبان چاک صحرا کو نکلتا ہوں
ادھر سے مجھے کہتا ہے کہ تو جل یار کے دیرے
مستزاد مثلث
خمسہ برغزل فغان
سامان دوالی کا
عید الفطر کے بیان میں
آگرہ کی ککڑی کی تعریف
مسدس
آٹے دال کا بیان میں
کوڑے کے بیان میں مسدس
پیسے کی عزت میں
برسات کے بیان میں
خمسہ برغزل خود
دربیان رتال و نجومی وغیرہم
آٹے دال کا بیان
پیسے کے بیان میں
ایضاً
خمسہ
ولہ جھونپڑا
ایضاً
بنجارہ نامہ
خمسہ
خمسہ برغزل سعدی
دربیان فراق
موسم زمتان
دربیان تماشاے دنیا
دربیان غنیمت شمردن حسن وجمال
تل کے لڈو
ریچھ کا بچہ
خمسہ برغزل سراج
کورے برتن کی تعریف میں
کوّے اور ہرن کے بچہ کا بیان
ایضاً
آدمی نامہ
ایضاً
تربوز کی تعریف میں
خمسہ برغزل
بیان خواب میں دیکھنے کا
خمسہ برغزل خود
کنکوے اور پتنگ کی تعریف
خوشامد کے بیان میں
در حمد الٰہی
خمسہ برغزل مولانا سعدی
خمسہ
در راز داری محبوب
خمہ ثانی
در بیان شکوہ گزاری محبوب
دربیان عرس حضرت سلیم چشتی
خمسہ
خمسہ برغزل حافظ
دربیان موت
مفلسی نامہ
کیا وہ دلبری کوئےنویلا ہے
بلدیو جی کا میلہ
ہر طرف حسن کی پکاریں ہیں
اتنے لوگوں کے ٹھیٹھ لگے ہیں آ
بسکہ اونڈے ہیں خلقتوں کے دل
آج میلے کا ہے جو یہاں سامان
نازنیں ہیں وہ سانورے گورے
خلق آتی ہے سب جڑی ہے جڑ ہی ہے
کنڈ پر ہی نہاں ہوتے ہیں
ہر طرف گلبدن رنگیلے ہیں
صحن مند کا سب سے ہے اعلی
ہے جو مندر میں آپ وہ لالن
کتنے کچے ہیں کتنے پکے ہیں
کوئے چنچل چلے ہی ٹھمکی چال
بسکہ آتے ہیں راجہ اور رانی
سینکڑوں رنگ رنگ کے چھڑیاں
لگ رہی بھیڑ اس قدر ٹھیٹھ ہو
کیا مچی ہے بہار جے بلدیو
تاج گنج کے روضہ کی تعریف
در تعریف پنجتن پاک
در مدح حضرت سلیم چشتی
دربیان کلمہ محمد ﷺ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔