حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
محبت کا تری بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
حسن پری اک جلوہ مستانہ ہے اسکا
کیا داد خواہ ہو کوئی اس کے قتیل کا
آئینہ صاحب نظر ان ہے کہ جو تھا
اے جنوں دشت عدم کے کوچ کا ساماں کیا ہے
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہ تا یان کیا
دل چھٹ کے جان سے کورکی منزل میں رہے گا
مری آنکھوں کے آگے آئیگا کیا جوش میں دریا
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
بیمار عشق رنج ومحن سے نکل گیا
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
ایک دن فرصت جو میں بر گشتہ قسمت مانگتا
اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
رات کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
خاک میں مل کے بھی میں اس کو نہ دشمن سمجھا
ہوا ہے عشق ہم کو اس کے حسن پاک سے پیدا
کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا
شہر کو نالوں نے مجھ مجنوں کے صحرا کر دیا
غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا
ادب تا چند اے دست ہوس قاتل کے دامن کا
تصور ہر نفس ہے پیش چشم اس روئے روشن کا
آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا
روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا
حشر کو بھی دیکھنے کا اس کے ارماں رہ گیا
کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا
تیری کا کل میں پھنسا ہے دل جو ان وپیر کا
عالم منطق مصور ہو تری تصویر کا
قد صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا
دکھا یا آئینہ فکر نے جب صفائے آب ور سخن کا
بلبل گلوں سے دیکھے تجھ کو بگڑ گیا
کرم کیا جو صنم نے ستم زیاد کیا
یہ انفعال گنہ سے میں آب آب ہوا
سبزہ بالائے دفن دشمن ہے خلق اللہ کا
فرش ہے اے یار خاک دوست و دشمن زیر پا
اگر چہ پاس محبت سے ترک شیون تھا
جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
تن سے بار سر آمادۂ سودا اترا
دل شہید رہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا
آگ پر رشک سے میں چاک گریباں لوٹا
خیال آیا جو عشق زلف میں دلکی تباہی کا
کشتہ اے یار ہوں میں تیری جفا کاری کا
دوستی دشمن کی مژدہ ہے اجل کے خواب کا
عشق میں ممکن نہیں ہونا بخیراانجام کا
زلف زیبا ہے قریب رخ جاناں ہونا
زخم کاری کے جو کھا نیکو مرا دل دوڑا
کشتہ اک عالم ہے چشم لعبت خو کا م کا
دوست دشمن نے کیے قتل کے ساماں کیا کیا
چشم باراں میں مرے بعد نہ خونناب اترا
اک جاکہیں میں مثل ریگ رواں نہ ٹھہرا
لب لعین نے بد خشاں ویمن دکھلایا
لطیف جاں سے ہر اک عفو تن نظر آیا
اپنی زبان کو بلبل اندوہ گیں جلا
زخم دل بھرتا ہے جلوہ چہرۂ پر نور کا
صاف آئینہ سے رخسار ہے اس دلبر کا
وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
درد دل سے اسقدر کا ہیدہ میں غمگین ہوا
لکھیں عاشق کو نہ تو اے گل رعنا دکھلا
خوشی ہونے ہیں ناداں پہنکر کمخواب کا جوڑا
منتظر تھا وہ تو جست وجو میں یہ آوارہ تھا
آنکھوں سے اس پری کے دل نا تواں گرا
گل سے خوشرنگ ہر اک داغ بدن مجھ کو دیا
میں نے عریاں تجھے اے رشک قمر دیکھ لیا
آئینہ رخ کا دکھا مردم کو آنکھ اوپر اٹھا
آشیانہ ہوگیا اپنا قفس فولاد کا 45
برق خرمن تھا کبھی نالہ دل نا شاد کا
نہیں کچھ امتیاز اس عشق کو گم نام ونامی کا
جذبۂ دل سے کمال کہر با ہو جائے گا
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا
فریب حسن سے کبرو مسلمان کا چلن بگڑا
کسکوے گلگوں سے بے یار کے مطلب تھا
نہ چھوٹے گا چھڑا کر اس کو اے قاتل نہ بن لڑکا
ہے جب سے دست یار میں ساغر شراب کا
کہتے ہیں عطر جس کو یہ مردم گلاب کا
ہاتھوں میں یار کے نہیں ساغر شراب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
رنج وراحت کا مرے واسطے ساماں ہوگا
ہنگامہ نزع محو ہوں تیرے خیال کا
انصاف کی ترازو میں تو لا عیاں ہوا
رشک کے بارے زمر د خاک میں مل جائے گا
جو ہر اپنے آئینہ رخسار کا دکھلائے گا
عیسیٰ سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
کوچۂ یار میں کس روز میں نالاں نہ گیا
حال زار اپنا فنا کے بعد بھی روشن رہا
ظہور آدم خاکی سے یہ ہم کو یقین آیا
عدم سے جانب ہستی جو ان تجھسا نہیں آیا
حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
پیری نے قدر است کو اپنے نگوں کیا
فرط شوق اس بت کے کوچہ میں لگا لیجائے گا
لیجئے برق تجلی کو اشارا اپنا
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاونگا
بت خورشید رو نوروز کے دن میہمان ہوگا
کمر بار سے کھنچ کر ہوئی تلوار جدا
لبھاتا ہے نہایت دلکو خط رخسار جاناں کا
خدا سردے تو سودا دے تری زلف پریشاں کا
رخ و زلف پر جان کھو یا کیا
بو زد جس کے تمھاری چشم کا افسانہ تھا
عشق کہنے ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
ابدال سے ہوا نہ تو اوتاد سے ہوا
کشتہ ہی گرم جوشی ہر جائی یار کا
باغ طلسم چہرۂ رنگین ہے یار کا
کرنیگے افترا شاعر قبا ے یار پر کیا کیا
گلوں نے کپڑے پھاڑے ہیں قباے یار پر کیا کیا
معاف ہو ویگا جو کچھ کہ ہے قصور ہمارا
مزا صیاد لوٹیں گے ہمارے شعر موزوں کا
سامنا تجھسے جو اے نادک فگن ہو جائیگا
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ہلال عید ہے بے یار جانی فعل ماتم کا
مرگئے پر نہ اثر حب شفا کا دیکھا
سودے میں ترے دھیان نہیں سود وزیاں کا
سر سے حاضر منقبت میں بے تامل ہوگیا
ہاتھ سے تیرے ہی لکھی ہے جو اے قاتل قضا
طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا
ہشیاری رنج دیتی ہے قید فرنگ کا
اس کیا عجب طلا اگر اکسیر سے ہوا
بیابان کو بھی ہنگام جنون میں سیر کر دیکھا
کیجئے چو رنگ عاشق کو نگاہ ناز کا
بلائے جان مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
وحشت نے ہمیں جبکہ گلستاں سے نکالا
وصل کی شب رنگ گردوں نوع دیگر ہوگیا
شادمانی میں نے کی غم جس قدر افزوں ہوا
آگیا مجھ کو پسینا جب کوئی ملزم ہوا
دوست تھا لازم ہے ماتم تم کو مجھ مایوس کا
قبضہ ہے اس پر تمھارے حسن سے خونریز کا
باغ عالم میں نہیں کون ثنا خوان تیرا
ہاتھ قاتل کا مرے خنجر تک آکر رہ گیا
دل شب فرقت میں ہے از سبکہ خواہاں مرگ کا
شب وصل تھی چاندنی کا سمان تھا
روے مژہ ان آنکھوں نے دل کو دکھا دیا
نوق اگر کوچہ محبوب کا رہبر ہوتا
گرم ہو کیسا ہی کتنا ہی کھنچے دور آفتاب
ردیف باے تازی
چین سکتا ہے کوئی جائے خیال یار خواب
کیا دیجئے گا عاشق دلگیر کا جواب
زعم میں اپنے یہ نا فہم جو استاد ہیں سب
خط سے اس رخ کا حل ہوا مطلب
بہتر دکھائی دیں کہیں سمش و قمر سے آپق
ردیف بائے فارسی
ردیف تاے مثناۃ
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
روزو شب ہنگامہ برپا ہے میاں کو ے دوست
تار تار پیر ہن میں بھر گئی ہے بوے دوست
رخ رنگین کا تصور ہے تماشاے بہشت
نظر آتا ہے مجھے اپنا سفر آج کی رات
آوے بہار جاے خزاں ہو چمن درست
کونسی جاہے جہاں تیرے نہیں اے یار مست
آئینہ کی طرف نہیں آتا خیال دوست
ردیف تائے ہندی
گل کو قبا پہن کے تو اے کج کلاہ کاٹ
ردیف ثاے مثلثہ
فصل گل ہے لوٹیے کیفیت میخانہ آج
ردیف جیم تازی
عاشق مہجور کے مانند ہے بیتاب موج
ردیف جیم فارسی
ردیف الحاء
شفق صبح نہ دیکھی نہ سنی نوبت صبح
اک روز اس سرائے سے ہی لا کلام کوچ
موتی جو اے صنم ترے سیب ذقن کی شاخ
ردیف خاء 113
لے لے کئے عذاربت شوخ وشنگ سرخ
قدرت حق ہے صیاحت سے تماشا ہے وہ رخ
ردیف دال
قاتل اپنا جو کرے گنج شہیدان آبا
مئے گلرنگ سے لبریز رہیں جام سفید
چاندانی رات میں کھولوں جو تری خوالمین بند
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میری بعد
چند کروں سینہ میں میں آہ وفغاں ہند
منھ کر لپیٹوں میں تو دم کر دے خیال یار بند
خو برو ہوتے ہیں سن کر تری تقریر سفید
ردیف ذال
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
ردیف دال ہندی
زور بازو ہی کو بازو کا میں سمجھا تعویذ
شانہ ٹوٹا تار گیسوئے معنبر توڑ کر
ردیف راء
َْجلدہو سفر اے مہ کنعان تیار
جاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دور
قصۂ سلسلۂ زلف نہ کہنا بہتر
اے جنوں رکھیو بیاباں کو سواری تیار
خط سے کب جاتے ہیں عاشق کوئے جاناں چھوڑ کر
دیکھی جو صبح زلف سیہ فام دوش پر
دم نکلتا ہے نگاہ چشم مست یار پر
جھڑتے ہیں پھول منھ سے اس تنگی دہن پر
دکھائی حسن نے قدرت خدا کی آکے جوبن پر
بہار آئی ہے عالم ہے گل ونسرین وسوسن پر
اول سے حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
حکم رانی پر ہوا میل سلیمان بہار
گرد کلفت جم رہی ہے ہر زبان بالاے سر
خون دل کے ساتھ ہے لخت جگر کا انتظار
ردیف رائے ہندی
حیرت ہے ہو نہ زلف ورخ ویار سے بگاڑ
جوش وخروش پر ہے بہار چمن ہنوز
ردیف زائے معجمہ
ساتھ ہے بعد فنا حسرت فتبراک ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہونچے جو دریار کے پاس
ردیف سین مہملہ
کرتے ہیں عبث یار سراغ پر طاوس
ردیف شین معجمہ
جلا میں شمع کے مانند عمر بھر خاموش
ردیف ضاد معجمہ
آفت جان ہے ترا اے سروں گل اندام رقص
کام ہے شیشے سے ہم کو اور ساغر سے غرض
ردیف صاد
سبزے سے خط یار کے ہوتا ہے غم غلط
ردیف طاء
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
ردیف ظاء معجمہ
ردیف عین مہملہ
خاک ہو جاتی ہے جل کر ہمرہ پروانہ شمع
قدر کیا رکھتی ہے پیش چہرۂ پر نور شمع
روشنی بزم ہے یان چہرۂ گلرنگ وشمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
ردیف غین معجمہ
نیان اس کی بنا کر میں کروں روشن چراغ
سن رکھے شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
ردیف فاء
اللہ ہووے بلبل ناشاد کی طرف
یہ دل ہے جیسے تمھارے خیال سے واقف
رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف
ردیف قاف
داغ دل زخم جگر ہے نعمت الوام عشق
ردیف کاف تازی
کسی حسین کی ہو کیا قدر یار کے نزدیک
ہر قبر پر آڑا ئے علی الاتصال خاک
ردیف کاف فارسی
لاتی ہے ہر نگہ میں نیا چشم یار رنگ
بہار میں جو ہوا ہے مرا گریباں چاک
نہ کر زیادہ بس اب اے فراق جاناں تنگ
ردیف لام
مومن کا مدد گار ہے شاہ نحف ابدل
عمر دو روزہ ہی میں ہزاروں نکھائے گل
درد دل کا جو کہا میں نے فسانہ شب وصل
ہم ہے یار کا آغوش میں آنا شب وصل
ملک الموت سے کچھ کم نہیں خونخوار کی شکل
آئینہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم
ردیف میم
غیر مہر رشک ماہ ہو تم
وحشی تھے بوئے گل کی طرح سے جہانمیں ہم
آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
میل کی طرح سے ہلتے نہیں زنہار قدم
نیچا سزا کو اپنی ہے بیداد گر کہاں
ردیف نون
اس قدر آنکھیں مری محو تماشا ہوگئیں
نہانے کو لگا جانے جو وہ محبوب دریا میں
خشمگیں آنکھیں تمھاری آفت جان ہوگئیں
بدہستی سے ہنوز آزاد گی حاصل کہاں
قریب کو دل اہل صفا میں راہ نہیں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے اندنوں
ہوا تھا اس کو ایسا لطف کیا حاصل گلستاں میں
برق کو اس پر عبث گرنے کی ہیں تیاریاں
پردے یہ غفلتوں کے اگر دل سے دور ہوں
پسے دل اس کی چتوں پر ہزاروں
دو قدم غربت سے گر سوئے وطن جاتا ہوں میں
آشنا معنی سے صورت آشنا ہوتا نہیں
واشد دل کیلئے جاتے ہیں ناداں باغ میں
غبار راہ ہیں گو آج ہم ان نے سواروں میں
وہ بزم ہے یہ کہ لاخیر کا مقام نہیں
یہ چرچا اپنی رسوائی کا پھیلا ہی دیا روں میں
گشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں
خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں
اسکی رسوائی بھلا مد نظر کیوں کر کریں
جلاو کی نہ پہونچے تلوار تابہ گردن
چاہتا ہوں جو وفا طینت دلبر میں نہیں
بلا اپنے لیے دانستہ داں مول لیتے ہیں
عیاں آیا ہے جو اس خورشید رو کا خواب میں
رقابو پر چڑھا میرے اندھیری رات میں
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
چاند سے منہ کو ترے یار کیا کرتے ہیں
الجھا ہے دل بتوں کے گیسوے پر شکن میں
دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں
مضمون آہ کیا مرے دیوان سے دور ہوں
تجھسا کوئی زمانے میں معجز بیاں نہیں
طفلی سے اور قہر ہوا وہ شباب میں
خاک میں مل کے بھی ہوں گا نہ غبار دامن
لالۂ بیداغ تجھ سا کوئی گلشن میں نہیں
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں
پانی پانی نہ ہو خجلت سے تو انصاف نہیں
صدمے پہونچے ہیں ہمارے بزووں پر سیکڑوں
مری خوش چشمی کا افسانہ سناتا ہوں میں
تیرا نیاز مند جو اے نازنیں نہیں
دسترس شانہ کے مانند جو پاجاتے ہیں
رہتے ہیں ہم روزو شب کوچۂ دلدار میں
گیسوؤں کا ترے سووا شعرا رکھتے ہیں
زمانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں
میں شش جہت میں خوب تری جستجو کریں
عاجز نہ ہو تصور حسین وجمال میں
اس کو نظر سے اشک خونی آتارتے ہیں
خم فلک سے بھروں وہ شراب شیشے میں
شرف بخشا گہر کو صرف کرکے تونے زیور میں
عجب چشم سیہ کا ہے رخ رنگیں جاناں میں
لپٹ کر سوئیے اس آتشیں رو سے رستافیں
سالک راہ محبت کو پس وپیش نہیں
توڑیے تو بہ کو کیجئے بادہ خواری اندنوں
دکھا کر آنکھ بیہوشوں کو وہ ہشیار کرتے ہیں
رخ انور کو دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
ردیف واو
سرمہ منظور نظر ٹھہرا ہے چشم یار کو
نمک آئینہ یاں رہ نہیں عشق مجازی کو
نالہ جاسوز نے پھونکا دل بیتاب کو
شفا مریض محبت کو زینہار نہ ہو
دست ہی جب دشمن جاں ہو تو کیا معلوم ہو
بید مجنوں دور سے خم ہوگیا تسلیم کو
دھیان اس کا کل مشکیں کا جو آیا مجھ کو
چشم بیمار کا یارب کوئی بیمار نہ ہو
سروبستاں تجھ سے گوئے باد صر صر خشک ہو
ترے سوا کوئی ترکیب دل پسند نہ ہو
طول شب فراق کا قصہ بیاں نہ ہو
صاف ہو ہر چند بد باطن عزیز دل نہ ہو
لقۂ دام ہیں وہ نرگس فتاں مجھ کو
کیا بادہ گلگوں سے مسرور کیا دل کو
لبھائے گا خنجر جلاد کا چر کا پہلو
نہ لایا یاد شب اس نے جو تیری ساق سمیں کو
لپٹ کر بار سے چوما نہایت روئے رنگیں کو
دل بیتاب کو فریاد وفغاں کرنے دو
جو روئے جفائے یار سے رنج ومحن نہ ہو
سامنے آنکھوں کے پہروں ہی بٹھایا یار کو
دوست رکھتے ہیں جواں مرد اہل جو ہر یار کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیرا نجام ہو
نعمت عشق کی چاہے تو راحت جاں ایذا کو
بے یار ساری رات جلا یا شراب کو
بیقراری میں مری یار اثر پیدا ہو
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
حاضر ہیں ہم جو معرکۂ کار زار ہو
ہوس نعمت کی بعد مرگ بھی رہتی ہے انسان کو
مریں گے جمع معنی فہم اجزائے پریشاں کو
ہنسنا ہی خوش آیا نہ تو رونا مرے دل کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
ردیف ہائے ہوز
اس قدر دل کو نکر اے بت سفا ک سیاہ
دیکھا ہے سبو کو جو دھرے سر کے تلے ہاتھ
پاس دل رکھتا ہے منظور نظر ہر آئینہ
سرخ مہندی سے نہیں اس بت خونخوار کے ہاتھ
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
اونچا ہوا لاکھ تاز سے بھی سرد چار ہاتھ
مرو آلودہ نہ ہوں دنیائے بازیگر کیساتھ
ردیف یائے تحتانی
خدایا واگیا مجھ کو بنوں کی بے نیازی سے
گیسو مشکیں رخ محبوب تک آنے لگے
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضموں غم ہے
صبر ہر چند ہو سینہ کیلئے سل بھاری
شادہ دل کی ہو جس دل میں آرزو تیری
شوق وصلت میں ہے شغل اشک فشانی مجھے
کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
عشق اسکا جان کھوتا ہے بر ناؤ پیر کی
کب تک وہ زلف دیتی ہے آزاد دیکھئے
کون سے دل میں محبت تھیں جانی تیری
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
مہندی سے تیرے ہاتھ کی گل ضرب دست کھائے
وہ افسوں ہے ہماری شعر خوانی
صدمہ ہے دوش پر سروگرد نکے بوجھ سے
رہ گیا چاک سے وحشت میں گریباں خالی
حسرت جلوۂ دیدار لئے پھرتی ہے
بند نقاب عارض دلدار توڑیے
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
اثر رکھتی مے گلگونکی کیفیت کا ہستی ہے
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
اللہ ری روشنی مرے سینہ کے داغ کی
حسن امرو کا بہت مائل دل بیباک ہے
کبھی جو جذب محبت سے کام ہوتا ہے
جمال حورو پری پر ہے طعنہ زن مٹی
آبلوں سے خار صحرا ہی نہیں سر کھینچتے
ایڑیوں تک تری چوٹی کی رسائی ہوتی
کوئے جاناں چمن سے بہتر ہے
پیرہن تیرے شہیدوں کے گلستاں ہوگئے
کون سی شب ہے جو رورو کے نہیں کٹتی ہے
آنکھ پڑتے ہی قرار و صبر وطاقت لیگئے
ہے یہ امید قوی زلف رسائے یار سے
لوچہ یار میں چلئے تو غزل خواں چلئے
کوچہ تیرا ملیش باغ اے یار بے تاویل ہے
برگ آئینہ انساں کی قسمت ہے اگر سیدھی
کیف مے نے سرخ وہ رخ کر دیا عناب سے
گل سے افزوں مری آنکھوں میں ہیں ولچو کانٹے
وہم سا اک اے بت مغرور پیراہن میں ہے
پیڑھی میں آئے وہ رخ روشن نظر مجھے
چمن کا رنگ تجھ بن اپنی آنکھو میں مبدل ہے
فصل گل ہے خوں حیض دخت رز کا جوش ہے
ہاتھ مشتاق گریباں ہے جنوں کا جوش ہے
خون تیغ زنوں کے دم شمشیر سے ٹپکے
پاس رسوائی سے دل پر مردے کا ساحیر ہے
تیرۂ وتار جہاں ہو دل روشن ٹوٹے
اچلی ہے ایسی زمانہ میں کچھ ہو الٹی
یار قاتل ہے تو کس کو موت سے پرہیز ہے
کوچۂ یار کے نظارہ میں اغیار الجھے
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
غم نہیں کوئے بتاں میں جو نہیں جا خالی
برق بے پردہ اگر چہرۂ نورانی ہے
روئے خورشید سے روشن رخ نورانی ہے
کیا کیا نہ رنگ تیرے طلبگار لاچکے
زلزلہ گاہ گہے چشمۂ خوں جاری ہے
آگہی! فعی گیسوئے دلستاں کاٹے
مردم دیدہ رہے سایۂ مژگاں کے تلے
ابلیس حسد سے رہے تدبیر میں مری
اب کے زندہ ہم اگر یار کے در تک پہونچے
زاہد فریفتہ ہیں مرے نو نہال کے
میری قسمت میں لکھی موت جو تلوار کی تھی
رخصت یار کا جس وقت خیال آتا ہے
ہر دم تف دروں سے ہم آفت طلب رہے
عاشق روے کتابی اگر انساں ہووے
رشک پنجۂ مرجان پنجۂ جنائی ہے
دیوانہ اک پری کا ہے رکھتی ہوا مجھے
تری ابروئے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے
اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے
عاشق ہوں میں نفرت ہے مرے رنگ کو روسے
یہ وصیت مری ساقی نہ فراموش کرے
خاک ہونے سے در دلدار نے جاری مجھے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
مرغ دل کو ہدف ناوک مژگاں کرتے
دم شمشیر کی موج نفس میں باں روانی ہے
سینہ پر سنگ ملامت جو گراں جان روکے
پو جنابت کا نماز زاہد سالوس ہے
تصویر کھینچی اس کے رخ سرخ فام کی
فرقت کی شب میں گرمی ہے روز قیام کی
شب فرقت میں یار جانی کی
واقف ہوئی خزاں نہ ہماری بہار سے
بہار آئی چھکا ساقی شراب روح پرور سے
عارف ہے وہ جو حسن کا جو یا جہاں میں ہے
وحی چتوں کی خونخواری جو آگے تھی سواب بھی ہے
طفلی میں بھی شادی متوحش رہی ہم سے
قاتل عاشق ہر اک اس ترک کا انداز ہے
خرمن عمر جلے تیرے لب خنداں سے
خام کو شادی ہے غم پختہ کو ہے احسان سے
کام آخر نہ ہوا اپنا صف مژگاں سے
ساغر صاف مئے حب علی مشرب ہے
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
نفس شقی بھی روح کے ہمراہ تن میں ہے
تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
ایذا میں روح ہے تن خانہ خراب سے
ظاہر ہوا ہمیں یہ تمہارے حجاب سے
کوئی اچھا نہیں ہوتا بری چالوں سے
اتار اتار ساقی جو شیشہ طاق سے ہے
کنگ ایمائے لب یار سے گویا ہو وے
سرکاٹ کے کردیجئے قاتل کے حوالے
پاتا ہوں مہر ومہ کو نہی عدل و داد سے
یہ کس رشک مسیحا کا مکان ہے
خدا محفوظ رکھے دل کو اس افعی کاکل سے
بالائے بام خانہ وہ عالی جناب ہے
شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
تنگ دنیا کی خرابی میں ہوں نازک خوسے
سائل نجات کا ہوں خدائے کریم سے
آج تک واقف نہیں کوئی ہمارے حال سے
رام نازمیں شمشیر بران کی روانی ہے
کہاں تک آنکھوں میں سرخی شراب خواری سے
عاشق جانباز کی گردن پر احسان کیجئے
پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے
یہ کمانداری ہے دم تک عاشق دلگبر کے
تیغ ابرو نہیں دی جانے کی ابدل خالی
میکے تیشہ کھینچا رنج و صحن کیا چاہئے
صورت سے اسکی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی
لخت جگر کو کیونکر مژگاں تر سنبھالے
وہ کاوش خار خار غم کی ہم اے گلبدن بھولے
ناز واوا ہے تجھ سے دلا رام کے سے
قفل در قبول نہ کھولے بعید ہے
ہر چشم کو دیدار ترا مد نظر ہے
آسماں مر کے تو راحت ہو کہیں تھوڑی سی
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلمان آئی
بادباں کا کام کرتی ہے گھٹا برسات کی
غم نہیں ثابت قدم کو جہاں گردش میں ہے
ما سوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا بانی
کچھ نظر آیا نہ پھر جب تو نظر آیا مجھے
کیا کہئے کہ ہے سوزش داغ جگر ایسی
مجھ سے حستی میں جو ہوں شیشۂ ساغر ٹکڑے
خوشخطوں پر جو طبیعت مری آئی ہوتی
تیغ میں جوہر کہاں وہ ابرو خمدار کے
نافہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لئے
ٹھہرے نہ پھر جو راہ میں تیرے نکل چلے
چہکارتے ہیں مرغ خوش الحان نئے نئے
جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے
نکہت گل سے مجھے یار کی بو آتی ہے
تمام ہوا دیوان اول
وہ رنگ سرخ ہے کیف شراب سے ہوتا
دیوان دوم
عاشق شیدا علی مرتضےٰ کا ہوگیا
ہزار طرح سے ثابت ہے وہ وہاں ہوتا
کام رہنے کا نہیں بند اپنا
پامال کیجئے انھیں رفتار ناز کا
حسن سے دنیا میں دل کو عشق پیدا ہوگیا
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق وید کا
عشق مژگان کا مژہ بھی کوئی دم بھر ملتا
دل کو فزون چمن کی مٹی سے سروپایا
خدا نے برق تجلی تجھے جمال دیا
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
لباس سرخ پہن کر جو وہ جوان نکلا
جا کر قفس میں عاشق صیاد ہوگیا
سامنے جو پڑگیا دیوانہ بیباک تھا
عشق کے سودے سے پہلے درد سر کوئی نہ تھا
دیوانہ ہے دل یا تری جلوہ گری کا
اک سال میں دس دن بھی جسے غم نہیں ہوتا
تیری جو یاد اے ونخواہ بھولا
وصف کیجے جو تیری قامت کا
مشتاق اسقدر ہوں خدا کے حضور کا
اس ہمائے حسن کا عنقا مقابل ہوگیا
قومی دماغ رہے بلبل خوش الحان کا
کعبہ و ویرمیں ہے کس کے لئے دل جاتا
طریق عشق میں مارا پڑا جو دل بھٹکا
صحرائے مغیلان کا مگر مرحلہ آیا
رعدؔ کا شور ہو مورونکی صدا سے پیدا
فریز روح کے دم تک ہے کا لبد گل کا
ہر حال میں ہے اپنے مرا یار دلفریب
چلتے ہیں ناز سے جو وہ رفتار آفتاب
روشنی اس رخ کی کر جاتی ہے کا ر آفتاب
دکھلاتی ہے رنگینئی رخسار عجب روپ
بل کھا سکے نہ صورت گیسوئے یار سانپ
ردیف تاے قرشت
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
قامت سے دکھایا رتماشائے قیامت
لب شیریں تک انکے آئی بات
ردیف تائے ہندی
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
وصل کی شب نہیں عاشق سے سزا دار لپیٹ
بنیں گے کس کا زیور چاند سورج
ردیف جیم تازی 363
بلا اس زلف پیچان کا ہے ہر پیچ
راہ الفت میں نقد عمر کر حرچ
ردیف جیم فارسی
بہار آئی چمن میں چلی ہوائے قدح
ردیف حائے حطی
لگاوے پھر وہی اے گنج زر شاخ
ردیف خائے معجمہ
ہوا نہ حسن سے خال سیاہ جانان سرخ
فروغ مہر کا پیدا کرے ہمسارا چاند
کرتا ہے زندگی کو تمھارا حجاب تلخ
وہ آستاں ہے ترا اے فلک جناب بلند
رتبہ رکھتے ہیں ترے ابروئے خمدار بلند
پری پسند طبیعت نہ ہے نہ حور پسند
مول اک نگاہ ہے جو ہو دل یار کی پسند
رو کے آب اشک سے کرنا مہ غصیان سفید
نہ دے سکے گی زمستان میں مجھ کو ایذا ٹھنڈ
مرعوب طبع کیوں نہ ہو ایسی خشک لذیذ
بیت ہیں دو ابروئے زیباے یار
پڑگئی آنکھ جو ان چاند سے رخساروں پر
ردیف زائے معجمہ
ردیف کاف فارسی
ایک سے ایک ہے تماشا رنگ
دکھلائیینگے کیا یار کا شمس وقمر انداز
نون میں ترے دیکھکے سونیکے کرن پھول
درگاہ میں کریم کے ہے التجا قبول
ردیف میم
ڈھلتی ہے عاشقانہ ہماری غزل تمام
ردیف نون
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
رہا کرتا ہے درد اک رات دن بے یار پہلو میں
بازی عشق جزاندوہ دغم درنج نہیں
باہر نہ پائینچے سے ہوں اس گلبدن کے پانوں
عید نوروز ہے عشرت کا سرا انجام کریں
آرزو ہے مجھے سجدے سحرو شام کریں
خورشید حشر سے ہے سینہ کا داغ روشن
موسم گل ہے جنوں ہے شوروشپر ران دنوں
بہار لالۂ وگل سے لگی ہے آگ گلشن میں
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
حسرت شادی نہیں جان غم آلود کو
ردیف واؤ
ردیف یائے تحتانی
ردیف ہائے ہوز
گل کی قبا نہ لالے کی دستار لیجئے
ظاہر کسی کے دل کا ہو کیا خار خار کچھ
اسیر لطف وکرم کی رہائی مشکل ہے
ورد زباں جناب محمد کا نام ہے
دل بہت تنگ رہا رکرتا ہے
باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہیئے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آتی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
چمنستان کی گئی نستوو نما پھرتی ہے
تماشائے چمن سے سیر کوئے یار بہتر ہے
عناب لب کا اپنے مز ا کچھ نہ پوچھئے
باز آئینگے نہ بازی عیش دلشاط سے
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
بہار اائی مراد چمن خدا نے دی
کہتے ہیں ذکر لیلیٰ ومجنوں چو چھیڑیے
یا علی کہکر بت پندار تورا چاہئیے
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
وہن پر ہیں ان کے گمان کیسے کیسے
جان بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
چلا وہ راہ جو سالک کے پیش پا آئی
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماؤ خدا کیواسطے
اٹھتے ہی تیرے بزم سے سب اٹھ کھڑے ہوے
طاق ابرو ہیں پسند طبع اک ونحواہ کے
ہوائے دور مے خوشگوار راہ میں ہے
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
محبت کا تری بندہ ہر اک کو اے صنم پایا
حسن پری اک جلوہ مستانہ ہے اسکا
کیا داد خواہ ہو کوئی اس کے قتیل کا
آئینہ صاحب نظر ان ہے کہ جو تھا
اے جنوں دشت عدم کے کوچ کا ساماں کیا ہے
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہ تا یان کیا
دل چھٹ کے جان سے کورکی منزل میں رہے گا
مری آنکھوں کے آگے آئیگا کیا جوش میں دریا
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
بیمار عشق رنج ومحن سے نکل گیا
جگر کو داغ میں مانند لالہ کیا کرتا
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
ایک دن فرصت جو میں بر گشتہ قسمت مانگتا
اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
رات کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
خاک میں مل کے بھی میں اس کو نہ دشمن سمجھا
ہوا ہے عشق ہم کو اس کے حسن پاک سے پیدا
کام کرتی رہی وہ چشم فسوں ساز اپنا
شہر کو نالوں نے مجھ مجنوں کے صحرا کر دیا
غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا
ادب تا چند اے دست ہوس قاتل کے دامن کا
تصور ہر نفس ہے پیش چشم اس روئے روشن کا
آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا
روز مولود سے ساتھ اپنے ہوا غم پیدا
حشر کو بھی دیکھنے کا اس کے ارماں رہ گیا
کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا
تیری کا کل میں پھنسا ہے دل جو ان وپیر کا
عالم منطق مصور ہو تری تصویر کا
قد صنم سا اگر آفریدہ ہونا تھا
دکھا یا آئینہ فکر نے جب صفائے آب ور سخن کا
بلبل گلوں سے دیکھے تجھ کو بگڑ گیا
کرم کیا جو صنم نے ستم زیاد کیا
یہ انفعال گنہ سے میں آب آب ہوا
سبزہ بالائے دفن دشمن ہے خلق اللہ کا
فرش ہے اے یار خاک دوست و دشمن زیر پا
اگر چہ پاس محبت سے ترک شیون تھا
جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
تن سے بار سر آمادۂ سودا اترا
دل شہید رہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا
آگ پر رشک سے میں چاک گریباں لوٹا
خیال آیا جو عشق زلف میں دلکی تباہی کا
کشتہ اے یار ہوں میں تیری جفا کاری کا
دوستی دشمن کی مژدہ ہے اجل کے خواب کا
عشق میں ممکن نہیں ہونا بخیراانجام کا
زلف زیبا ہے قریب رخ جاناں ہونا
زخم کاری کے جو کھا نیکو مرا دل دوڑا
کشتہ اک عالم ہے چشم لعبت خو کا م کا
دوست دشمن نے کیے قتل کے ساماں کیا کیا
چشم باراں میں مرے بعد نہ خونناب اترا
اک جاکہیں میں مثل ریگ رواں نہ ٹھہرا
لب لعین نے بد خشاں ویمن دکھلایا
لطیف جاں سے ہر اک عفو تن نظر آیا
اپنی زبان کو بلبل اندوہ گیں جلا
زخم دل بھرتا ہے جلوہ چہرۂ پر نور کا
صاف آئینہ سے رخسار ہے اس دلبر کا
وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
درد دل سے اسقدر کا ہیدہ میں غمگین ہوا
لکھیں عاشق کو نہ تو اے گل رعنا دکھلا
خوشی ہونے ہیں ناداں پہنکر کمخواب کا جوڑا
منتظر تھا وہ تو جست وجو میں یہ آوارہ تھا
آنکھوں سے اس پری کے دل نا تواں گرا
گل سے خوشرنگ ہر اک داغ بدن مجھ کو دیا
میں نے عریاں تجھے اے رشک قمر دیکھ لیا
آئینہ رخ کا دکھا مردم کو آنکھ اوپر اٹھا
آشیانہ ہوگیا اپنا قفس فولاد کا 45
برق خرمن تھا کبھی نالہ دل نا شاد کا
نہیں کچھ امتیاز اس عشق کو گم نام ونامی کا
جذبۂ دل سے کمال کہر با ہو جائے گا
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا
فریب حسن سے کبرو مسلمان کا چلن بگڑا
کسکوے گلگوں سے بے یار کے مطلب تھا
نہ چھوٹے گا چھڑا کر اس کو اے قاتل نہ بن لڑکا
ہے جب سے دست یار میں ساغر شراب کا
کہتے ہیں عطر جس کو یہ مردم گلاب کا
ہاتھوں میں یار کے نہیں ساغر شراب کا
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
رنج وراحت کا مرے واسطے ساماں ہوگا
ہنگامہ نزع محو ہوں تیرے خیال کا
انصاف کی ترازو میں تو لا عیاں ہوا
رشک کے بارے زمر د خاک میں مل جائے گا
جو ہر اپنے آئینہ رخسار کا دکھلائے گا
عیسیٰ سے نالہ درد دل کی خبر نہ کرتا
کوچۂ یار میں کس روز میں نالاں نہ گیا
حال زار اپنا فنا کے بعد بھی روشن رہا
ظہور آدم خاکی سے یہ ہم کو یقین آیا
عدم سے جانب ہستی جو ان تجھسا نہیں آیا
حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
پیری نے قدر است کو اپنے نگوں کیا
فرط شوق اس بت کے کوچہ میں لگا لیجائے گا
لیجئے برق تجلی کو اشارا اپنا
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاونگا
بت خورشید رو نوروز کے دن میہمان ہوگا
کمر بار سے کھنچ کر ہوئی تلوار جدا
لبھاتا ہے نہایت دلکو خط رخسار جاناں کا
خدا سردے تو سودا دے تری زلف پریشاں کا
رخ و زلف پر جان کھو یا کیا
بو زد جس کے تمھاری چشم کا افسانہ تھا
عشق کہنے ہیں اسے نیمچۂ ابرو کا
ابدال سے ہوا نہ تو اوتاد سے ہوا
کشتہ ہی گرم جوشی ہر جائی یار کا
باغ طلسم چہرۂ رنگین ہے یار کا
کرنیگے افترا شاعر قبا ے یار پر کیا کیا
گلوں نے کپڑے پھاڑے ہیں قباے یار پر کیا کیا
معاف ہو ویگا جو کچھ کہ ہے قصور ہمارا
مزا صیاد لوٹیں گے ہمارے شعر موزوں کا
سامنا تجھسے جو اے نادک فگن ہو جائیگا
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ہلال عید ہے بے یار جانی فعل ماتم کا
مرگئے پر نہ اثر حب شفا کا دیکھا
سودے میں ترے دھیان نہیں سود وزیاں کا
سر سے حاضر منقبت میں بے تامل ہوگیا
ہاتھ سے تیرے ہی لکھی ہے جو اے قاتل قضا
طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا
ہشیاری رنج دیتی ہے قید فرنگ کا
اس کیا عجب طلا اگر اکسیر سے ہوا
بیابان کو بھی ہنگام جنون میں سیر کر دیکھا
کیجئے چو رنگ عاشق کو نگاہ ناز کا
بلائے جان مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
وحشت نے ہمیں جبکہ گلستاں سے نکالا
وصل کی شب رنگ گردوں نوع دیگر ہوگیا
شادمانی میں نے کی غم جس قدر افزوں ہوا
آگیا مجھ کو پسینا جب کوئی ملزم ہوا
دوست تھا لازم ہے ماتم تم کو مجھ مایوس کا
قبضہ ہے اس پر تمھارے حسن سے خونریز کا
باغ عالم میں نہیں کون ثنا خوان تیرا
ہاتھ قاتل کا مرے خنجر تک آکر رہ گیا
دل شب فرقت میں ہے از سبکہ خواہاں مرگ کا
شب وصل تھی چاندنی کا سمان تھا
روے مژہ ان آنکھوں نے دل کو دکھا دیا
نوق اگر کوچہ محبوب کا رہبر ہوتا
گرم ہو کیسا ہی کتنا ہی کھنچے دور آفتاب
ردیف باے تازی
چین سکتا ہے کوئی جائے خیال یار خواب
کیا دیجئے گا عاشق دلگیر کا جواب
زعم میں اپنے یہ نا فہم جو استاد ہیں سب
خط سے اس رخ کا حل ہوا مطلب
بہتر دکھائی دیں کہیں سمش و قمر سے آپق
ردیف بائے فارسی
ردیف تاے مثناۃ
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
روزو شب ہنگامہ برپا ہے میاں کو ے دوست
تار تار پیر ہن میں بھر گئی ہے بوے دوست
رخ رنگین کا تصور ہے تماشاے بہشت
نظر آتا ہے مجھے اپنا سفر آج کی رات
آوے بہار جاے خزاں ہو چمن درست
کونسی جاہے جہاں تیرے نہیں اے یار مست
آئینہ کی طرف نہیں آتا خیال دوست
ردیف تائے ہندی
گل کو قبا پہن کے تو اے کج کلاہ کاٹ
ردیف ثاے مثلثہ
فصل گل ہے لوٹیے کیفیت میخانہ آج
ردیف جیم تازی
عاشق مہجور کے مانند ہے بیتاب موج
ردیف جیم فارسی
ردیف الحاء
شفق صبح نہ دیکھی نہ سنی نوبت صبح
اک روز اس سرائے سے ہی لا کلام کوچ
موتی جو اے صنم ترے سیب ذقن کی شاخ
ردیف خاء 113
لے لے کئے عذاربت شوخ وشنگ سرخ
قدرت حق ہے صیاحت سے تماشا ہے وہ رخ
ردیف دال
قاتل اپنا جو کرے گنج شہیدان آبا
مئے گلرنگ سے لبریز رہیں جام سفید
چاندانی رات میں کھولوں جو تری خوالمین بند
قبر پر یار نے قرآن پڑھا میری بعد
چند کروں سینہ میں میں آہ وفغاں ہند
منھ کر لپیٹوں میں تو دم کر دے خیال یار بند
خو برو ہوتے ہیں سن کر تری تقریر سفید
ردیف ذال
رکھتا ہے یار ابروے خمدار پر گھمنڈ
ردیف دال ہندی
زور بازو ہی کو بازو کا میں سمجھا تعویذ
شانہ ٹوٹا تار گیسوئے معنبر توڑ کر
ردیف راء
َْجلدہو سفر اے مہ کنعان تیار
جاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دور
قصۂ سلسلۂ زلف نہ کہنا بہتر
اے جنوں رکھیو بیاباں کو سواری تیار
خط سے کب جاتے ہیں عاشق کوئے جاناں چھوڑ کر
دیکھی جو صبح زلف سیہ فام دوش پر
دم نکلتا ہے نگاہ چشم مست یار پر
جھڑتے ہیں پھول منھ سے اس تنگی دہن پر
دکھائی حسن نے قدرت خدا کی آکے جوبن پر
بہار آئی ہے عالم ہے گل ونسرین وسوسن پر
اول سے حسن وعشق کو لایا ہے راہ پر
حکم رانی پر ہوا میل سلیمان بہار
گرد کلفت جم رہی ہے ہر زبان بالاے سر
خون دل کے ساتھ ہے لخت جگر کا انتظار
ردیف رائے ہندی
حیرت ہے ہو نہ زلف ورخ ویار سے بگاڑ
جوش وخروش پر ہے بہار چمن ہنوز
ردیف زائے معجمہ
ساتھ ہے بعد فنا حسرت فتبراک ہنوز
ذرہ خورشید ہو پہونچے جو دریار کے پاس
ردیف سین مہملہ
کرتے ہیں عبث یار سراغ پر طاوس
ردیف شین معجمہ
جلا میں شمع کے مانند عمر بھر خاموش
ردیف ضاد معجمہ
آفت جان ہے ترا اے سروں گل اندام رقص
کام ہے شیشے سے ہم کو اور ساغر سے غرض
ردیف صاد
سبزے سے خط یار کے ہوتا ہے غم غلط
ردیف طاء
نشۂ عشق کا اثر ہے شرط
ردیف ظاء معجمہ
ردیف عین مہملہ
خاک ہو جاتی ہے جل کر ہمرہ پروانہ شمع
قدر کیا رکھتی ہے پیش چہرۂ پر نور شمع
روشنی بزم ہے یان چہرۂ گلرنگ وشمع
بزم میں رنگیں خیالوں کے جو ہو روشن چراغ
ردیف غین معجمہ
نیان اس کی بنا کر میں کروں روشن چراغ
سن رکھے شام ہوتی ہے میرا سخن چراغ
ردیف فاء
اللہ ہووے بلبل ناشاد کی طرف
یہ دل ہے جیسے تمھارے خیال سے واقف
رجوع بندہ کی ہے اس طرح خدا کی طرف
ردیف قاف
داغ دل زخم جگر ہے نعمت الوام عشق
ردیف کاف تازی
کسی حسین کی ہو کیا قدر یار کے نزدیک
ہر قبر پر آڑا ئے علی الاتصال خاک
ردیف کاف فارسی
لاتی ہے ہر نگہ میں نیا چشم یار رنگ
بہار میں جو ہوا ہے مرا گریباں چاک
نہ کر زیادہ بس اب اے فراق جاناں تنگ
ردیف لام
مومن کا مدد گار ہے شاہ نحف ابدل
عمر دو روزہ ہی میں ہزاروں نکھائے گل
درد دل کا جو کہا میں نے فسانہ شب وصل
ہم ہے یار کا آغوش میں آنا شب وصل
ملک الموت سے کچھ کم نہیں خونخوار کی شکل
آئینہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم
ردیف میم
غیر مہر رشک ماہ ہو تم
وحشی تھے بوئے گل کی طرح سے جہانمیں ہم
آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
میل کی طرح سے ہلتے نہیں زنہار قدم
نیچا سزا کو اپنی ہے بیداد گر کہاں
ردیف نون
اس قدر آنکھیں مری محو تماشا ہوگئیں
نہانے کو لگا جانے جو وہ محبوب دریا میں
خشمگیں آنکھیں تمھاری آفت جان ہوگئیں
بدہستی سے ہنوز آزاد گی حاصل کہاں
قریب کو دل اہل صفا میں راہ نہیں
بلبل کو خار خار دبستاں ہے اندنوں
ہوا تھا اس کو ایسا لطف کیا حاصل گلستاں میں
برق کو اس پر عبث گرنے کی ہیں تیاریاں
پردے یہ غفلتوں کے اگر دل سے دور ہوں
پسے دل اس کی چتوں پر ہزاروں
دو قدم غربت سے گر سوئے وطن جاتا ہوں میں
آشنا معنی سے صورت آشنا ہوتا نہیں
واشد دل کیلئے جاتے ہیں ناداں باغ میں
غبار راہ ہیں گو آج ہم ان نے سواروں میں
وہ بزم ہے یہ کہ لاخیر کا مقام نہیں
یہ چرچا اپنی رسوائی کا پھیلا ہی دیا روں میں
گشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں
خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں
اسکی رسوائی بھلا مد نظر کیوں کر کریں
جلاو کی نہ پہونچے تلوار تابہ گردن
چاہتا ہوں جو وفا طینت دلبر میں نہیں
بلا اپنے لیے دانستہ داں مول لیتے ہیں
عیاں آیا ہے جو اس خورشید رو کا خواب میں
رقابو پر چڑھا میرے اندھیری رات میں
مرے دل کو شوق فغاں نہیں مرے لب تک آتی دعا نہیں
تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
چاند سے منہ کو ترے یار کیا کرتے ہیں
الجھا ہے دل بتوں کے گیسوے پر شکن میں
دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں
مضمون آہ کیا مرے دیوان سے دور ہوں
تجھسا کوئی زمانے میں معجز بیاں نہیں
طفلی سے اور قہر ہوا وہ شباب میں
خاک میں مل کے بھی ہوں گا نہ غبار دامن
لالۂ بیداغ تجھ سا کوئی گلشن میں نہیں
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں
پانی پانی نہ ہو خجلت سے تو انصاف نہیں
صدمے پہونچے ہیں ہمارے بزووں پر سیکڑوں
مری خوش چشمی کا افسانہ سناتا ہوں میں
تیرا نیاز مند جو اے نازنیں نہیں
دسترس شانہ کے مانند جو پاجاتے ہیں
رہتے ہیں ہم روزو شب کوچۂ دلدار میں
گیسوؤں کا ترے سووا شعرا رکھتے ہیں
زمانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں
میں شش جہت میں خوب تری جستجو کریں
عاجز نہ ہو تصور حسین وجمال میں
اس کو نظر سے اشک خونی آتارتے ہیں
خم فلک سے بھروں وہ شراب شیشے میں
شرف بخشا گہر کو صرف کرکے تونے زیور میں
عجب چشم سیہ کا ہے رخ رنگیں جاناں میں
لپٹ کر سوئیے اس آتشیں رو سے رستافیں
سالک راہ محبت کو پس وپیش نہیں
توڑیے تو بہ کو کیجئے بادہ خواری اندنوں
دکھا کر آنکھ بیہوشوں کو وہ ہشیار کرتے ہیں
رخ انور کو دکھا کر خاک کا پیوند کرتے ہیں
ردیف واو
سرمہ منظور نظر ٹھہرا ہے چشم یار کو
نمک آئینہ یاں رہ نہیں عشق مجازی کو
نالہ جاسوز نے پھونکا دل بیتاب کو
شفا مریض محبت کو زینہار نہ ہو
دست ہی جب دشمن جاں ہو تو کیا معلوم ہو
بید مجنوں دور سے خم ہوگیا تسلیم کو
دھیان اس کا کل مشکیں کا جو آیا مجھ کو
چشم بیمار کا یارب کوئی بیمار نہ ہو
سروبستاں تجھ سے گوئے باد صر صر خشک ہو
ترے سوا کوئی ترکیب دل پسند نہ ہو
طول شب فراق کا قصہ بیاں نہ ہو
صاف ہو ہر چند بد باطن عزیز دل نہ ہو
لقۂ دام ہیں وہ نرگس فتاں مجھ کو
کیا بادہ گلگوں سے مسرور کیا دل کو
لبھائے گا خنجر جلاد کا چر کا پہلو
نہ لایا یاد شب اس نے جو تیری ساق سمیں کو
لپٹ کر بار سے چوما نہایت روئے رنگیں کو
دل بیتاب کو فریاد وفغاں کرنے دو
جو روئے جفائے یار سے رنج ومحن نہ ہو
سامنے آنکھوں کے پہروں ہی بٹھایا یار کو
دوست رکھتے ہیں جواں مرد اہل جو ہر یار کو
کیا ہوا نادم دکھا کر آئینہ میں یار کو
یارب آغاز محبت کا بخیرا نجام ہو
نعمت عشق کی چاہے تو راحت جاں ایذا کو
بے یار ساری رات جلا یا شراب کو
بیقراری میں مری یار اثر پیدا ہو
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
حاضر ہیں ہم جو معرکۂ کار زار ہو
ہوس نعمت کی بعد مرگ بھی رہتی ہے انسان کو
مریں گے جمع معنی فہم اجزائے پریشاں کو
ہنسنا ہی خوش آیا نہ تو رونا مرے دل کو
ہے نرالی کشش عشق جفا کار کی راہ
ردیف ہائے ہوز
اس قدر دل کو نکر اے بت سفا ک سیاہ
دیکھا ہے سبو کو جو دھرے سر کے تلے ہاتھ
پاس دل رکھتا ہے منظور نظر ہر آئینہ
سرخ مہندی سے نہیں اس بت خونخوار کے ہاتھ
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
اونچا ہوا لاکھ تاز سے بھی سرد چار ہاتھ
مرو آلودہ نہ ہوں دنیائے بازیگر کیساتھ
ردیف یائے تحتانی
خدایا واگیا مجھ کو بنوں کی بے نیازی سے
گیسو مشکیں رخ محبوب تک آنے لگے
واقعہ دل کا جو موزوں ہے تو مضموں غم ہے
صبر ہر چند ہو سینہ کیلئے سل بھاری
شادہ دل کی ہو جس دل میں آرزو تیری
شوق وصلت میں ہے شغل اشک فشانی مجھے
کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
عشق اسکا جان کھوتا ہے بر ناؤ پیر کی
کب تک وہ زلف دیتی ہے آزاد دیکھئے
کون سے دل میں محبت تھیں جانی تیری
پیمبر میں نہیں عاشق ہوں جانی
مہندی سے تیرے ہاتھ کی گل ضرب دست کھائے
وہ افسوں ہے ہماری شعر خوانی
صدمہ ہے دوش پر سروگرد نکے بوجھ سے
رہ گیا چاک سے وحشت میں گریباں خالی
حسرت جلوۂ دیدار لئے پھرتی ہے
بند نقاب عارض دلدار توڑیے
رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجئے
اثر رکھتی مے گلگونکی کیفیت کا ہستی ہے
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
اللہ ری روشنی مرے سینہ کے داغ کی
حسن امرو کا بہت مائل دل بیباک ہے
کبھی جو جذب محبت سے کام ہوتا ہے
جمال حورو پری پر ہے طعنہ زن مٹی
آبلوں سے خار صحرا ہی نہیں سر کھینچتے
ایڑیوں تک تری چوٹی کی رسائی ہوتی
کوئے جاناں چمن سے بہتر ہے
پیرہن تیرے شہیدوں کے گلستاں ہوگئے
کون سی شب ہے جو رورو کے نہیں کٹتی ہے
آنکھ پڑتے ہی قرار و صبر وطاقت لیگئے
ہے یہ امید قوی زلف رسائے یار سے
لوچہ یار میں چلئے تو غزل خواں چلئے
کوچہ تیرا ملیش باغ اے یار بے تاویل ہے
برگ آئینہ انساں کی قسمت ہے اگر سیدھی
کیف مے نے سرخ وہ رخ کر دیا عناب سے
گل سے افزوں مری آنکھوں میں ہیں ولچو کانٹے
وہم سا اک اے بت مغرور پیراہن میں ہے
پیڑھی میں آئے وہ رخ روشن نظر مجھے
چمن کا رنگ تجھ بن اپنی آنکھو میں مبدل ہے
فصل گل ہے خوں حیض دخت رز کا جوش ہے
ہاتھ مشتاق گریباں ہے جنوں کا جوش ہے
خون تیغ زنوں کے دم شمشیر سے ٹپکے
پاس رسوائی سے دل پر مردے کا ساحیر ہے
تیرۂ وتار جہاں ہو دل روشن ٹوٹے
اچلی ہے ایسی زمانہ میں کچھ ہو الٹی
یار قاتل ہے تو کس کو موت سے پرہیز ہے
کوچۂ یار کے نظارہ میں اغیار الجھے
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
غم نہیں کوئے بتاں میں جو نہیں جا خالی
برق بے پردہ اگر چہرۂ نورانی ہے
روئے خورشید سے روشن رخ نورانی ہے
کیا کیا نہ رنگ تیرے طلبگار لاچکے
زلزلہ گاہ گہے چشمۂ خوں جاری ہے
آگہی! فعی گیسوئے دلستاں کاٹے
مردم دیدہ رہے سایۂ مژگاں کے تلے
ابلیس حسد سے رہے تدبیر میں مری
اب کے زندہ ہم اگر یار کے در تک پہونچے
زاہد فریفتہ ہیں مرے نو نہال کے
میری قسمت میں لکھی موت جو تلوار کی تھی
رخصت یار کا جس وقت خیال آتا ہے
ہر دم تف دروں سے ہم آفت طلب رہے
عاشق روے کتابی اگر انساں ہووے
رشک پنجۂ مرجان پنجۂ جنائی ہے
دیوانہ اک پری کا ہے رکھتی ہوا مجھے
تری ابروئے پیوستہ کا عالم میں فسانہ ہے
اے جنوں ہوتے ہیں صحرا پر اتارے شہر سے
عاشق ہوں میں نفرت ہے مرے رنگ کو روسے
یہ وصیت مری ساقی نہ فراموش کرے
خاک ہونے سے در دلدار نے جاری مجھے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
مرغ دل کو ہدف ناوک مژگاں کرتے
دم شمشیر کی موج نفس میں باں روانی ہے
سینہ پر سنگ ملامت جو گراں جان روکے
پو جنابت کا نماز زاہد سالوس ہے
تصویر کھینچی اس کے رخ سرخ فام کی
فرقت کی شب میں گرمی ہے روز قیام کی
شب فرقت میں یار جانی کی
واقف ہوئی خزاں نہ ہماری بہار سے
بہار آئی چھکا ساقی شراب روح پرور سے
عارف ہے وہ جو حسن کا جو یا جہاں میں ہے
وحی چتوں کی خونخواری جو آگے تھی سواب بھی ہے
طفلی میں بھی شادی متوحش رہی ہم سے
قاتل عاشق ہر اک اس ترک کا انداز ہے
خرمن عمر جلے تیرے لب خنداں سے
خام کو شادی ہے غم پختہ کو ہے احسان سے
کام آخر نہ ہوا اپنا صف مژگاں سے
ساغر صاف مئے حب علی مشرب ہے
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
نفس شقی بھی روح کے ہمراہ تن میں ہے
تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
ایذا میں روح ہے تن خانہ خراب سے
ظاہر ہوا ہمیں یہ تمہارے حجاب سے
کوئی اچھا نہیں ہوتا بری چالوں سے
اتار اتار ساقی جو شیشہ طاق سے ہے
کنگ ایمائے لب یار سے گویا ہو وے
سرکاٹ کے کردیجئے قاتل کے حوالے
پاتا ہوں مہر ومہ کو نہی عدل و داد سے
یہ کس رشک مسیحا کا مکان ہے
خدا محفوظ رکھے دل کو اس افعی کاکل سے
بالائے بام خانہ وہ عالی جناب ہے
شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
تنگ دنیا کی خرابی میں ہوں نازک خوسے
سائل نجات کا ہوں خدائے کریم سے
آج تک واقف نہیں کوئی ہمارے حال سے
رام نازمیں شمشیر بران کی روانی ہے
کہاں تک آنکھوں میں سرخی شراب خواری سے
عاشق جانباز کی گردن پر احسان کیجئے
پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے
یہ کمانداری ہے دم تک عاشق دلگبر کے
تیغ ابرو نہیں دی جانے کی ابدل خالی
میکے تیشہ کھینچا رنج و صحن کیا چاہئے
صورت سے اسکی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
بازار دہر میں تری منزل کہاں نہ تھی
لخت جگر کو کیونکر مژگاں تر سنبھالے
وہ کاوش خار خار غم کی ہم اے گلبدن بھولے
ناز واوا ہے تجھ سے دلا رام کے سے
قفل در قبول نہ کھولے بعید ہے
ہر چشم کو دیدار ترا مد نظر ہے
آسماں مر کے تو راحت ہو کہیں تھوڑی سی
موت کو سمجھے رہیں گبرو مسلمان آئی
بادباں کا کام کرتی ہے گھٹا برسات کی
غم نہیں ثابت قدم کو جہاں گردش میں ہے
ما سوا تیرے نہیں رہنے کا کچھ یا بانی
کچھ نظر آیا نہ پھر جب تو نظر آیا مجھے
کیا کہئے کہ ہے سوزش داغ جگر ایسی
مجھ سے حستی میں جو ہوں شیشۂ ساغر ٹکڑے
خوشخطوں پر جو طبیعت مری آئی ہوتی
تیغ میں جوہر کہاں وہ ابرو خمدار کے
نافہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لئے
ٹھہرے نہ پھر جو راہ میں تیرے نکل چلے
چہکارتے ہیں مرغ خوش الحان نئے نئے
جوہر نہیں ہمارے ہیں صیاد پر کھلے
نکہت گل سے مجھے یار کی بو آتی ہے
تمام ہوا دیوان اول
وہ رنگ سرخ ہے کیف شراب سے ہوتا
دیوان دوم
عاشق شیدا علی مرتضےٰ کا ہوگیا
ہزار طرح سے ثابت ہے وہ وہاں ہوتا
کام رہنے کا نہیں بند اپنا
پامال کیجئے انھیں رفتار ناز کا
حسن سے دنیا میں دل کو عشق پیدا ہوگیا
لباس یار کو میں پارہ پارہ کیا کرتا
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق وید کا
عشق مژگان کا مژہ بھی کوئی دم بھر ملتا
دل کو فزون چمن کی مٹی سے سروپایا
خدا نے برق تجلی تجھے جمال دیا
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
لباس سرخ پہن کر جو وہ جوان نکلا
جا کر قفس میں عاشق صیاد ہوگیا
سامنے جو پڑگیا دیوانہ بیباک تھا
عشق کے سودے سے پہلے درد سر کوئی نہ تھا
دیوانہ ہے دل یا تری جلوہ گری کا
اک سال میں دس دن بھی جسے غم نہیں ہوتا
تیری جو یاد اے ونخواہ بھولا
وصف کیجے جو تیری قامت کا
مشتاق اسقدر ہوں خدا کے حضور کا
اس ہمائے حسن کا عنقا مقابل ہوگیا
قومی دماغ رہے بلبل خوش الحان کا
کعبہ و ویرمیں ہے کس کے لئے دل جاتا
طریق عشق میں مارا پڑا جو دل بھٹکا
صحرائے مغیلان کا مگر مرحلہ آیا
رعدؔ کا شور ہو مورونکی صدا سے پیدا
فریز روح کے دم تک ہے کا لبد گل کا
ہر حال میں ہے اپنے مرا یار دلفریب
چلتے ہیں ناز سے جو وہ رفتار آفتاب
روشنی اس رخ کی کر جاتی ہے کا ر آفتاب
دکھلاتی ہے رنگینئی رخسار عجب روپ
بل کھا سکے نہ صورت گیسوئے یار سانپ
ردیف تاے قرشت
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
قامت سے دکھایا رتماشائے قیامت
لب شیریں تک انکے آئی بات
ردیف تائے ہندی
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
وصل کی شب نہیں عاشق سے سزا دار لپیٹ
بنیں گے کس کا زیور چاند سورج
ردیف جیم تازی 363
بلا اس زلف پیچان کا ہے ہر پیچ
راہ الفت میں نقد عمر کر حرچ
ردیف جیم فارسی
بہار آئی چمن میں چلی ہوائے قدح
ردیف حائے حطی
لگاوے پھر وہی اے گنج زر شاخ
ردیف خائے معجمہ
ہوا نہ حسن سے خال سیاہ جانان سرخ
فروغ مہر کا پیدا کرے ہمسارا چاند
کرتا ہے زندگی کو تمھارا حجاب تلخ
وہ آستاں ہے ترا اے فلک جناب بلند
رتبہ رکھتے ہیں ترے ابروئے خمدار بلند
پری پسند طبیعت نہ ہے نہ حور پسند
مول اک نگاہ ہے جو ہو دل یار کی پسند
رو کے آب اشک سے کرنا مہ غصیان سفید
نہ دے سکے گی زمستان میں مجھ کو ایذا ٹھنڈ
مرعوب طبع کیوں نہ ہو ایسی خشک لذیذ
بیت ہیں دو ابروئے زیباے یار
پڑگئی آنکھ جو ان چاند سے رخساروں پر
ردیف زائے معجمہ
ردیف کاف فارسی
ایک سے ایک ہے تماشا رنگ
دکھلائیینگے کیا یار کا شمس وقمر انداز
نون میں ترے دیکھکے سونیکے کرن پھول
درگاہ میں کریم کے ہے التجا قبول
ردیف میم
ڈھلتی ہے عاشقانہ ہماری غزل تمام
ردیف نون
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
رہا کرتا ہے درد اک رات دن بے یار پہلو میں
بازی عشق جزاندوہ دغم درنج نہیں
باہر نہ پائینچے سے ہوں اس گلبدن کے پانوں
عید نوروز ہے عشرت کا سرا انجام کریں
آرزو ہے مجھے سجدے سحرو شام کریں
خورشید حشر سے ہے سینہ کا داغ روشن
موسم گل ہے جنوں ہے شوروشپر ران دنوں
بہار لالۂ وگل سے لگی ہے آگ گلشن میں
رخ ہو خط رخسار سے کیا کام ہے ہم کو
حسرت شادی نہیں جان غم آلود کو
ردیف واؤ
ردیف یائے تحتانی
ردیف ہائے ہوز
گل کی قبا نہ لالے کی دستار لیجئے
ظاہر کسی کے دل کا ہو کیا خار خار کچھ
اسیر لطف وکرم کی رہائی مشکل ہے
ورد زباں جناب محمد کا نام ہے
دل بہت تنگ رہا رکرتا ہے
باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہیئے
زخم دل میں تیری فرقت سے جگر میں داغ ہے
آتی ہے عید قرباں خنجر کو لال کرتے
چمنستان کی گئی نستوو نما پھرتی ہے
تماشائے چمن سے سیر کوئے یار بہتر ہے
عناب لب کا اپنے مز ا کچھ نہ پوچھئے
باز آئینگے نہ بازی عیش دلشاط سے
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
بہار اائی مراد چمن خدا نے دی
کہتے ہیں ذکر لیلیٰ ومجنوں چو چھیڑیے
یا علی کہکر بت پندار تورا چاہئیے
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
وہن پر ہیں ان کے گمان کیسے کیسے
جان بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
چلا وہ راہ جو سالک کے پیش پا آئی
چپ ہو کیوں کچھ منہ سے فرماؤ خدا کیواسطے
اٹھتے ہی تیرے بزم سے سب اٹھ کھڑے ہوے
طاق ابرو ہیں پسند طبع اک ونحواہ کے