سرورق
تڑپ کے لوٹ کے آنسو بہا کے دیکھ لیا
نالۂ دل لب سے جس دن آشنا ہو جائےگا
ظرف تو دیکھئے میرےے دل شیدائی کا
رات بزم عیش میں کیا کچھ نہ تھا
دل کو یوں لے جانے والا کون تھا
ادھر کونین کی دولت خزینہ تھا محمد کا
توبہ توبہ اس کا جلوا کچھ نہ تھا
ہم نے طیبہ میں تری جلوہ گری کو دیکھا
میں کہوں چھیڑ کے کیوں دل کا تڑپنا دیکھا
گلشن طیبہ میں آیا یاد جب روئے حبیب
ترے بغیر کوئی کام ہو نہیں سکتا
گریباں چاک مجنوں بن سے نکلا
اب ستم ڈھائے گا دل پر مرے جانا تیرا
اے قیس نجد سے کچھ گہرا ہے راز میرا
اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر
آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سواے دوست
محشر میں جو چمکا رخ تابان محمد
مٹ گیا بہزاد خود اس حسن کی تحریر پر
ہر جفا انکی ہوئی ہم کو وفا سے بڑھ کر
قاصد یہی ہے نامہ یہی ہے پیام شوق
پھر رہے ہیں یونہی اک مدت سے بازاروں میں ہم
ان کے پر تونے جو ڈالا گل رخسار کا رنگ
لے اڑا بخت سیہ ہجر میں تدبیر کا رنگ
چھوڑ کر مجھ کو چلی اے بیوفا میں بھی تو ہوں
اگر ہمت ہے برق آسماں میں
گلی میں یار کی آنکھیں بچھاے دیتے ہیں
بڑی مشکل سے ہم اس بیوفا کا نام لیتے ہیں
جس جگہ ان کے قدم جاتے ہیں
فلک شکوہ ملک اقتدار ہم بھی ہیں
اپنا مسکن جو مدینے کو بنا لیتے ہیں
یہی کہتے ہیں بس مقصود ہم تیرا سمجھتے ہیں
لیچل اب اے صبا مدینے میں
ہم روضہ شاہ دوسرا دیکھ رہے ہیں
پڑیں یہ کس کے جلوے پر نگاہیں
دیکھ لو اک نظر میں کچھ بھی نہیں
ہے جو رنگ تھے اسکی جلوہ گاہوں میں
جہاں تک رنج دینا ہے دیئے جاؤ
نظر آیا ہے یہ کس کا رخ گلگوں مجھ کو
تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو
کچھ ہو مجھے نصیب زمانے میں یا نہ ہو
آپ نیساں کی طرح رکھتے ہیں جو ہر آنسو
لائے صبا مدینۂ شاہ زمن کی بو
لیتے میں نہ کیوں سارے رسولوں سے سوا ہو
شان ہے خالق مسجود کی شان کعبہ
دم آخر زباں پر نام تیرا ہو تو اچھا ہو
دکھا دے الٰہی بہار مدینہ
اللہ اللہ ضیائے رمضان طیبہ
کیا بتائیں تمہیں کہاں دل ہے
بلندی تیرے کوچےے کی کہاں معلوم ہوتی ہے
روک دے موت کو بھی آنے سے
نہ وہ قاتل میں رہتا ہے نہ وہ خنجر میں رہتا ہے
جو مدینے سے شرف خاک شفا لیکر گئے
عاقبت کا اپنی سامان کر چلے
او ہمپہ نگاہ کرنے والے
نگاہوں میں یہ جلوے ہیں کہاں کے
وہ دیکھو آرہے ہیں وہ کہیں سے
کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے
رقیبوں پر کرم اچھا نہیں ہے
کھیل ہے عشق دل لگی کے لئے
اللہ اللہ جمال یار ارزانی تری
کام کرہی چکی جفا تیری
شب غم کبھی مجھ پہ آئی نہ ہوتی
کیا پوچھتے ہو آکے مدینے میں کیا رہے
جلوۂ یار کا خزینہ ہے
اونچی جگہ ضرور کہیں مے کشی ہوئی
اس ادا سے دل اسنے پھیرا آج
ہم شب غم کاوش درد نہاں دیکھا کئے
قسمت انہیں کی ہے جو مدینے میں مر گئے
آپ اب یاں سے جا نہیں سکتے
دامن کو وہ پھولوں سے بھرے یوں ادھر آے
ہر حسن ہے تم میں کیا نہیں ہے
نہ پوچھو شب وصل کیا ہورہا ہے
انتخاب دیوان منشی نوبت رائے مرحوم نظر لکھنوی
منشی نوبت رائے نظر
گلزار الفت پر نتیجہ یہ ہوا تقدیر کا
معنیٔ طراز عشق ہر اک بادۂ مے خوار تھا
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
دیکھ نوشاد ذرا منہ سے اٹھا کر سہرا
کوئی ارمان تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
اسنے مئے پی کے سر بزم جو ساغر الٹا
یاس وناکامی سے بے حس قلب مضطر ہو گیا
وہ تغافل کو علاج غم پنہاں سمجھا
بہار میں ہے یہ ناز آفریں ادائے بہار
راحت کی جگہ گلشن امکان نہیں دیکھا
یہی اک قطرۂ خوں حاصل ارض وسما ہوتا
پس توبہ حدیث مطرب وپیمانہ کہتے ہیں
میں رند بادہ نوش قدح خوار بھی نہیں
اہل دل کو سر زمین عشق میں راحت نہیں
کوئی مجھ سا مستحق رحم و غمخواری نہیں
درد الفت دل عاشق میں جو لہر دیتا ہے
ستم زدوں کو نہیں چین بعد مردن بھی
ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
وہ سمجھے ہیں ہماری آہ سوزاں بے اثر ہوگی
سوزاں غم جاوید سے دل بھی ہے جگر بھی
کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
ضبط سے دل ترا رہتا ہے
بے پروبالی ہوئی ہے باعث شادی مجھے
امید زیست کیا ہو اس مریض رنج وحرماں کی
ہنسے اپنی حالت پہ جب رونے والے
ہو لاکھ چارہ سازی لیکن اثر نہیں ہے
جاں بلب رکھتا ہے ہردم اضطراب دل مجھے
یہ تجربے ہوئے اس دل کو قحط الفت کے
اک مختصر سی چیز تمنا کہیں جسے
تمہیں بلاؤ کہ آئے کہیں قضا میری
روچکے ہم ہجر کی شب رو چکے
آچلی میری سخن سازی میں کچھ تاثیر بھی
AUTHORAbdul Qadir Mujaddidi
YEAR1937
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Raees-ul-Matabe, Kanpur
AUTHORAbdul Qadir Mujaddidi
YEAR1937
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Raees-ul-Matabe, Kanpur
سرورق
تڑپ کے لوٹ کے آنسو بہا کے دیکھ لیا
نالۂ دل لب سے جس دن آشنا ہو جائےگا
ظرف تو دیکھئے میرےے دل شیدائی کا
رات بزم عیش میں کیا کچھ نہ تھا
دل کو یوں لے جانے والا کون تھا
ادھر کونین کی دولت خزینہ تھا محمد کا
توبہ توبہ اس کا جلوا کچھ نہ تھا
ہم نے طیبہ میں تری جلوہ گری کو دیکھا
میں کہوں چھیڑ کے کیوں دل کا تڑپنا دیکھا
گلشن طیبہ میں آیا یاد جب روئے حبیب
ترے بغیر کوئی کام ہو نہیں سکتا
گریباں چاک مجنوں بن سے نکلا
اب ستم ڈھائے گا دل پر مرے جانا تیرا
اے قیس نجد سے کچھ گہرا ہے راز میرا
اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر
آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سواے دوست
محشر میں جو چمکا رخ تابان محمد
مٹ گیا بہزاد خود اس حسن کی تحریر پر
ہر جفا انکی ہوئی ہم کو وفا سے بڑھ کر
قاصد یہی ہے نامہ یہی ہے پیام شوق
پھر رہے ہیں یونہی اک مدت سے بازاروں میں ہم
ان کے پر تونے جو ڈالا گل رخسار کا رنگ
لے اڑا بخت سیہ ہجر میں تدبیر کا رنگ
چھوڑ کر مجھ کو چلی اے بیوفا میں بھی تو ہوں
اگر ہمت ہے برق آسماں میں
گلی میں یار کی آنکھیں بچھاے دیتے ہیں
بڑی مشکل سے ہم اس بیوفا کا نام لیتے ہیں
جس جگہ ان کے قدم جاتے ہیں
فلک شکوہ ملک اقتدار ہم بھی ہیں
اپنا مسکن جو مدینے کو بنا لیتے ہیں
یہی کہتے ہیں بس مقصود ہم تیرا سمجھتے ہیں
لیچل اب اے صبا مدینے میں
ہم روضہ شاہ دوسرا دیکھ رہے ہیں
پڑیں یہ کس کے جلوے پر نگاہیں
دیکھ لو اک نظر میں کچھ بھی نہیں
ہے جو رنگ تھے اسکی جلوہ گاہوں میں
جہاں تک رنج دینا ہے دیئے جاؤ
نظر آیا ہے یہ کس کا رخ گلگوں مجھ کو
تم نے پوچھا نہیں کبھی ہم کو
کچھ ہو مجھے نصیب زمانے میں یا نہ ہو
آپ نیساں کی طرح رکھتے ہیں جو ہر آنسو
لائے صبا مدینۂ شاہ زمن کی بو
لیتے میں نہ کیوں سارے رسولوں سے سوا ہو
شان ہے خالق مسجود کی شان کعبہ
دم آخر زباں پر نام تیرا ہو تو اچھا ہو
دکھا دے الٰہی بہار مدینہ
اللہ اللہ ضیائے رمضان طیبہ
کیا بتائیں تمہیں کہاں دل ہے
بلندی تیرے کوچےے کی کہاں معلوم ہوتی ہے
روک دے موت کو بھی آنے سے
نہ وہ قاتل میں رہتا ہے نہ وہ خنجر میں رہتا ہے
جو مدینے سے شرف خاک شفا لیکر گئے
عاقبت کا اپنی سامان کر چلے
او ہمپہ نگاہ کرنے والے
نگاہوں میں یہ جلوے ہیں کہاں کے
وہ دیکھو آرہے ہیں وہ کہیں سے
کیوں دیکھتے ہی نقش بہ دیوار بن گئے
رقیبوں پر کرم اچھا نہیں ہے
کھیل ہے عشق دل لگی کے لئے
اللہ اللہ جمال یار ارزانی تری
کام کرہی چکی جفا تیری
شب غم کبھی مجھ پہ آئی نہ ہوتی
کیا پوچھتے ہو آکے مدینے میں کیا رہے
جلوۂ یار کا خزینہ ہے
اونچی جگہ ضرور کہیں مے کشی ہوئی
اس ادا سے دل اسنے پھیرا آج
ہم شب غم کاوش درد نہاں دیکھا کئے
قسمت انہیں کی ہے جو مدینے میں مر گئے
آپ اب یاں سے جا نہیں سکتے
دامن کو وہ پھولوں سے بھرے یوں ادھر آے
ہر حسن ہے تم میں کیا نہیں ہے
نہ پوچھو شب وصل کیا ہورہا ہے
انتخاب دیوان منشی نوبت رائے مرحوم نظر لکھنوی
منشی نوبت رائے نظر
گلزار الفت پر نتیجہ یہ ہوا تقدیر کا
معنیٔ طراز عشق ہر اک بادۂ مے خوار تھا
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
دیکھ نوشاد ذرا منہ سے اٹھا کر سہرا
کوئی ارمان تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
اسنے مئے پی کے سر بزم جو ساغر الٹا
یاس وناکامی سے بے حس قلب مضطر ہو گیا
وہ تغافل کو علاج غم پنہاں سمجھا
بہار میں ہے یہ ناز آفریں ادائے بہار
راحت کی جگہ گلشن امکان نہیں دیکھا
یہی اک قطرۂ خوں حاصل ارض وسما ہوتا
پس توبہ حدیث مطرب وپیمانہ کہتے ہیں
میں رند بادہ نوش قدح خوار بھی نہیں
اہل دل کو سر زمین عشق میں راحت نہیں
کوئی مجھ سا مستحق رحم و غمخواری نہیں
درد الفت دل عاشق میں جو لہر دیتا ہے
ستم زدوں کو نہیں چین بعد مردن بھی
ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
وہ سمجھے ہیں ہماری آہ سوزاں بے اثر ہوگی
سوزاں غم جاوید سے دل بھی ہے جگر بھی
کاروبار عشق کی کثرت کبھی ایسی نہ تھی
ضبط سے دل ترا رہتا ہے
بے پروبالی ہوئی ہے باعث شادی مجھے
امید زیست کیا ہو اس مریض رنج وحرماں کی
ہنسے اپنی حالت پہ جب رونے والے
ہو لاکھ چارہ سازی لیکن اثر نہیں ہے
جاں بلب رکھتا ہے ہردم اضطراب دل مجھے
یہ تجربے ہوئے اس دل کو قحط الفت کے
اک مختصر سی چیز تمنا کہیں جسے
تمہیں بلاؤ کہ آئے کہیں قضا میری
روچکے ہم ہجر کی شب رو چکے
آچلی میری سخن سازی میں کچھ تاثیر بھی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.