سرورق
پیش لفظ
دیباچہ
مجھ کو آیا ہے نظر یار جب اغیار کے ساتھ
کرتا ہوں سدا شکر ادا پاک خدا کا
نہ ہوتا گر چہ دنیا میں محمد مصطفیٰ پیدا
ہزار افسوس عدم سے کیوں ہوا فانی جہاں پیدا
کیا فروغ بزم اس مہرو کا شب صد رنگ تھا
ندیم رند خرابات درد کش رہنا
جب سے پہلو سے میرے شوخ وہ خود کام گیا
معشوق کو بعاشق گر ربط ناز ہوگا
شب مری خاک پہ وہ شمع نگارا گزرا
یاد وہ دن کہ تجھے میل بہ اغیار نہ تھا
گر وہ عاشقاں میں جب کیا ہم نے شمار اپنا
پھر روز فراق یار آیا
میکشی کے لئے جب سرو خرامان اٹھا
جب تک کہ میری گھات میں وہ شرمگیں نہ تھا
بندہ پرور جو نہ پچھتائے گا
جس نے ہے گل کو رنگا بھیج بہ گلزار دیا
پانچ دن کو جو یہاں پر آگیا
گلی میں طرفہ اسکے جور برحال عاشقاں دیکھا
ہم نے دیکھا تھا جو کچھ وہ تو زمانہ نہ رہا
ایک عالم کو ترے عشق میں روتے دیکھا
یہ مشت خاک اپنے جہاں چاہے تہاں لیجا
کسی کے عشق سے پیدا اگر شیدا نہیں ہوتا
پسر اشراف کا فی الواقعی ابتر نہیں ہوتا
قصور مردم دنیا ہے جو یکسو نہیں ہوتا
ہوا ہے مے کی باعث سے جہاں میں نام شیشہ کا
عشق کا تیرے یہ دفتر نہ ہوا تھا سو ہوا
فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
بوالہوس نہیں یہ کہو عشق کو پہچانہ کیا
نہیں محتاج ہوں ریبار کے پیغام لانے کا
جب ستے بالی میں دل کے عشق کا دانہ پڑا
چلیں گے چھوڑ کہیں آہ یہ جہاں تنہا
جو کہ اس دنیا میں آکر سو گیا
اے دل اب عشق کی لے گوئی اور چوگان میں آ
نہ کسی نے بار پایا بمراد کار اپنا
تو جا طبیب ہوا عشق دلپذیر میرا
زلف کو الجھا کے سلجھانا بشانہ پھر کیا
کسی کی زلف میں جاکر کے ابتو دل میرا اٹکا
یہ نیاز و عجز اپنا پیر دکھلانے لگا
اب رخ دلدار پر آغاز خط آنے لگا
میں نہیں تنہا اس پر اس طرز اور انداز کا
مضغۂ لحم نہیں دل پہ ہے دل نام اس کا
ہر چند مجھے ناز سزاوار ہے تیرا
میں مدلل نہ تیری وصل پہ بیجا رویا
جسکو اس دہر میں دیکھا اسے گریاں دیکھا
دیکھا دل شوریدہ دیوانہ کہیں ایسا
مجھ کو اے یار بہ ہر شکل تو منظور ہے آ
جس نے میری دلربا کے مکھڑے پر ڈالی نقاب
قتل وہ کرتا ہے مجھ کو پاس یاری کے سبب
یا الٰہی کس طرح میرا سخن سن لے حبیب
اشقیا کو نہیں عاشق کا ہو ظاہر مطلب
مباح ہووے گی اس کے تئیں فرنگ شراب
کچھ اپنے کام نہیں آوے جام جم کی کتاب
کسی کے شوق میں خون جگر شراب کباب
ساقیا لا جلد میخانہ ستے جام شراب
فریاد غمزدے کی سن امشب تمام شب
دل نے دی شب جو کیا اس کا خیال آپ سے آپ
شب کو دھوکے سے میرے ہاتھ میں آیا تھا سانپ
شیشہ ساں دل میں پڑا ہائے رے بال آپ سے آپ
دیکھا ہے تیرا جب سے سراپاے قیامت
کون کہتا ہے کسے اپنے دلارام کی بات
کرے ہے گھر میں لطف اب یار پر اغبار یا قسمت !
نظر آتا ہے جو دنیا میں ہے معمور باکلفت
بزم آراستہ تھی شیشہ تھا اور جام تھا رات
جھمکڑا اپنے مکھڑے کا دکھادے کھول دے گھونگھٹ
صاف رکھ سینہ مصفا عشق میں مثل زجاج
روز شب کرتے ہیں اے دل تجھ سے چشماں الغیاث
غریب کیوں نہ کرے خاک کو بسر بھی آج
آج پھر رکھی ہے سر پر شوخ نے دستار کج
نہ ہو سکے دل بیمار کا کسی سے علاج
صورت یار کی کیا خوب درخشاں ہے آج
عشق بازاں کرو کچھ فرصت ہنگام ہے آج
دیدکر کھول کے آنکھیں مہ تاباں ہے آج
نہ کیجو عشق میں تو نفع اور نقصان کا لالچ
نیک و بد اپنے کو تو جان لے پہچان اوچہ
حدوث کیا سمجھتے تھے جب تھے قدم کے بیچ
کچھ نہ پوچھو میرے دل کی یارو گھبرانے کی طرح
برز میں دیکھے فلک سے جو میرے یار کی طرح
دکھا نہ مجھ کو تو صیاد زلف دام کی طرح
جو لاوے باد صبا یار کا پیام صباح
جس طر دیکھو ادھر گل ہے گل گلزار سرخ
آوے گر اختیار میں میرے وہ یار شوخ
کیا خبر کس نے رکھا نام فلک کا جلاد
رکھے دنیا سے دنیا دار مقصود
دلا تو سرو میں اس باغ کے ثمر کو نہ ڈھونڈ
اپنے جاناں کو اے جان اسی جان میں ڈھونڈ
مکتب عشق میں یعنی جو پڑھا ہو تنفیذ
نہ تو ہے گبرنہ ہندو نہ مسلماں کاغذ
گھڑی گھڑی میں تیری دوستی پیار ہے اور
چھوڑ اسکا عشق ڈھونڈھوں مہوشان چند اور
بہ طرف مشتاق گاہ گاہے تجھے مناسب گزر کیا کر
لباس عیش اے دل چھوڑ ترک خود نمائی کر
ہے تعدی آسماں کی عاشقاں زار پر
غیر سے الفت جو رکھتا ہے تو میں اور یار اور
پارسا تو پارسای پر نہ کر اتنا غرور
جس گلستاں میں کہ سرو اسکا نہ ہووے جلوہ گر
درد دل کا کسے کروں اظہار
بے گل مکھڑے تیرے کیا باگل و گلزار کار
جی رہے یا نہ رہے پر قدم یار نہ چھوڑ
جاے افسوس نہ عقبیٰ کا کیا کام ہنوز
نہ پایا اب تلک اس شوخ کا نشان ہنوز
عشق کی کوئی اگر سیکھ لے گر مجھ سے تمیز
بوالہوس عشق میں کھیچے ہے پشیمانی ژاژ
کہاں کا ننگ رہا اور کہاں رہا ناموس
ہوا ہے مجھ سے دل آزردہ کیوں حبیب افسوس
ہوا فراق میں مہرو کی بے طرح وسواس
شرب غم عاشقوں کو بس ہے بس
نیم بسمل نہیں رہ سکتا ہے بیمار خموش
جو کہ بیٹھا ہو صمنم غیروں میں دو چار کے پاس
بیوفائی نہ کر اے شوخ ستمگار خموش
دبک پر عشق کے اے دل تو نہ رکھنا سرپوش
صحبت یار مجھے بے رخ اغیار ہے خوش
تیقن کیجیو اے دل کہ بیخ ایمان ہے اخلاص
کتنی مدت ہوئی کرتے بھی طبیبوں سے عرض
نہیں ہے میرے تئیں کوئی بے حیا سے غرض
اہل معنی کے تئیں فانی ہے دنیا کی نشاط
بس ہے اے یار تیری زلف کا یک تار فقط
مجھ سا ناشاد کوئی تجھ سے جو ہو شاد غلط
پھسنا جو عشق میں اے دل تو اب خدا حافظ
بلبلوں کو نہ ہو گل گر نہیں گلزار سے حظ
غیر میرے کون میرے یار سے پاوے ہے حظ
جتنا نہ میرے تئیں اپنا تو ہنر واعظ
ہے کسے غرض سنے کون ہماری شارع
کیا فروغ حسن اپنا شام دکھاتے ہے شمع
عمر گزری سیر میں میری یہ آبادی وراغ
سر کو اپنے دے کے آتش کس کی فریادی ہے شمع
کوئی دل کو میرے کرتا نہیں تسکیں طفف
ایک واحد ہے شمار اس کے بہت ہیں آلاف
زلف میں تیری میرا دل ہے صنم یوں تعلیق
سو طرح میں نے لگائی آہ بازی جان تک
پائی نہ بیمار عشق نے آرام جانی اب تلک
کفر عشق آیا بدل مجھ مومن دیندار تک
عاشق سوختہ دل خط صنم دوسو ایک
ماتم رنج و الم غم ہیں بہم چاروں ایک
جس طرح موت قیامت ہے حشر تینو ایک
شوخ کی محفل میں آکر کیوں گیا اتنا بہک
اے دلا دل نہ کبھی دہر کے جنجال میں ڈال
اے فلک تو مثل بوقلموں بدلتا ہے جو رنگ
خوبرو داں نے گلے اپنے میں ڈالا ہار گل
جون بصد محنت بمدت کردہ بودم یار دل
آج کی شب ہے تپ غم سے میرا بیتاب دل
افسوس کیا کروں کہ نہیں ہے قرار دل
عشق میں کیونکہ سلامت رکھوں یہ جاں بہ بغل
ابر سان ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
قسمت کے لکھے سوا فزودن معلوم!
گر چاہے اس شوخ کے تئیں رام کریں ہم
کیا طرفہ تماشا ہوئے بین دو عدم ہم
نہیں معلوم ہے کس نظروں میں منظور ہیں ہم
اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم
بر زمیں زیر فلک ہر چند ہیں آباد ہم
گندم کے تئیں جو کھا گئے ہم
کسی سے ہو نہ سکا ہے کسی کا کام تمام
کسی کی شادی سے مطلب نہ مجھ کو غم سے کام
قول وصلت کا کہاں وعدہ دیدار کہاں
بسے ہے گرچہ جہاں پر اسے قیام کہاں
کون سے شوخ ستمگر کا ثنا خواں ہوں میں
ایک ماہرو پڑا تھا ہماری نظر کہیں
دو جہاں مجھ میں پر کنار ہوں میں
دل دادہ تیرے حسن کے آغاز کا ہوں میں
تیرا تن صاف جیوں آئینہ جیسے شیر پانی میں
رات اس کافر کے کوچے میں فغاں رکھتا تھا میں
مجھے جز دختر رز کس کی جستجو ہے شیشہ میں
دل ہمارا ہے وہ ایک جانب گلشن جس میں
شراب ناطقہ کیا پر تو مطلق ہے شیشہ میں
حقیقت کی کھولے گر آنکھ دو عالم ہے شیشہ میں
سوجتن سے میں کہا اسکو کہ ایک جان ہمیں
نہ جا بکعبہ تیرا مدعا کہاں پہ نہیں
تجھے حال زار پر اے صنم کسی کے ذرا تو نظر نہیں
شوخ کے کوچے میں عاشق کو تو ماوائی نہیں
اہل دنیا سے مجھے دوستو کچھ کام نہیں
غم ہے جوں بحر غمگسار نہیں
کسی کی بزم میں جوں شمع تن اپنا جلاتے ہیں
اس شوخ کے جب گھر سے اقدام نکلتے ہیں
جو شخص مدعا کو پہچان جانتے ہیں
نظروں میں اپنی نظریں کسی کی سمائیاں ہیں
اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
تیری ہجرت سے جسدم سسکیاں بھر بھر کے روتا ہوں
کیا کروں رخ نہ تیرا اے بت رعنا دیکھوں
سب خلق میں خدا کی مقصود ہیں تو ہم ہیں
رہا نہ صبر و قرار اور کیا میں چارہ کروں
کسی سے میں تیری وصلت کا التجا نہ کروں
مختلط غیر ہو اور میں رہوں نالاں تجھ بن
تلاش مطلب اے مدعی خطا ہے یہاں
باندھے ہے آج وہ مہوش پر فن دامن
لخت دل جب میرے مژگان کا فشار دامن
مدتاں گزری پیاری تیری سنتے گالیاں
کیا قیامت ہے یہ پر نشہ خماری انکھیاں
اضطراب اے غافل دل خواب سے بیدار ہو
بگفتہ غیر کوں مجلس سے تیرے یار اٹھ جاؤں
مسلخ عشق میں تیرے آئے ہیں ہم جو ہو سو ہو
عشق کی ہم پئیں گے مے روز جزا جو ہو سو ہو
ہو محبت جسکی تجھ کو تجھ سے اسکو عار ہو
راضی ہوں میں رضا پر رب تیری جو رضا ہو
طالب حق ہے اگر تو صبحدم بیدار ہو
سناوالبعث یہاں کیسی نظامت ہو تو ایسی ہو
بیوفا بیرحم ایسا یار سنگیں دلی نہ ہو
پینا شراب تب جو غم این و آں نہ ہو
مرحبا کیجے میاں ہم سے بھی سر بازوں کو
کون باہر کر سکے پردہ سے اس دلدادہ کو
یہ سر شام سے اڑتا ہے جو جل جانے کو
خوں ہٹا مژگاں ستے کہتا ہوں اس جلاد کو
کینہ نہ رکھ تو دل کے بیچ خاطر باصفائے کو
میرے دکھ پانے سے ہر چند کچھ آگاہ ہے اسکو
ہماری بات مانو یار مستانے کو مت چھیڑو
اے دل رلا نہ اس قد انکو ہجر سے تو
مت ہو ملوث اسقدر اہل چشم سے تو
یار کی زلف مکھڑے پر مار کے ہیں نشان دو
کھول آغوش گلے لگ کے میری جان کو دیکھ
لے گیا اپنے سے وہ مجھ کو بیک بار ہے یہ
غرور یار کا اور میرا انکسار نہ پوچھ
دل کے دینے کا بتاؤں میں سبب کیا کیا کچھ
اس پری رو پہ جا پڑی جو نگاہ
آہ دل تیرے تئیں جس طرح میں نے پالا
نہ کر غرور تن و جاں رہے رہے نہ رہے
مآل اپنے کی اے دل کی خبر رہے نہ رہے
اس دل کو دل کہوں کیا جو سنگ ہے سو یہ ہے
جس دل سے دل یہ اٹکا وہ جان ہے سو یہ ہے
مجھے تو رسواہی ایک دلبر نے عشقبازی سے کیا کیا ہے
یہ دل تقدیر سے آزاد ہے ونہ پند چاہے ہے
ہے خزاں عمر کا افسوس غم یار ووہی
شہر میں اب تو عجب شور ہے غوغا بھی ہے
آخر کا حال اپنے ز اول نظر میں ہے
جو میرا لے گیا دل کون وہ انسان ہے کیا ہے؟
میرے سینہ میں امر روح یا وہ جان ہے کیا ہے
یہ چہرہ مصحفی پر زلف الف لام ہے ہے کیا
لب جان بخش وہ جب بر سر بیداد آوے ہے
جلاتا شمع پر پروانہ گر چہ اپنی چھاتی ہے
شب وصال ہے پر دل کدر ابھی سے ہے
ضعیف ہم نہیں پر تن رقق ابھی سے ہے
کسی کے وصل میں ہجرت کا غم ابھی سے ہے
میں ہوں دیوانہ کسی کا کون سمجھاوے مجھے
جب سے اس عالم میں خالق نے کیا پیدا مجھے
وہ شوخ شب کو ہوا خواب میں دو چار مجھے
کعبہ بتخانہ میں جس کی تھی جو جستجو مجھے
ہم کس سے حال اپنا یہ درد کہیں گے
موہوم زندگی سے جس دم کہ ہم ہٹیں گے
اس تن عناصری میں جس دم کہ دم نہ ہوں گے
سنتے تھے کہ دنیا ہے عجب جائے فزا کی
ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
محبت ماسوا کی جس نے کی گوری کلوٹی کی
تیغ ابرو کے تلے تیرے جو ہم سردھر چکے
جب کسی نے آن کر دل سے میرے پر خاش کی
بات کہتا ہوں پیارے میں تجھے اب دور کی
مجھ پاس ایک شب کو جو وہ یار رہ سکے
ماہ وش دیکھے تھے در گبر مسلمان کئی
نہ کھولی تجھ سے گرہ خاطر یاران کبھی
کسی کے عشق میں حالت بہ تنگ آئے جدائی سے
ہم نہ محفوظ ہوئے ہیں کسی شے سے ایسے
شیخ جیو آتے ہیں دیکھو تو حرم سے ایسے
ہر چند نہ مطلب نہ غرض کام کسی سے
فایدہ اکثر سنا ہے مردم منفرد سے
ہوا ہے شوخ میرا جب سے چیں جبیں مجھ سے
ہوا کب اے فلک میرا حصول مدعا تجھ سے
نہ تھا آزردہ جیسا اب ہے ویسا پیشتر ہم سے
یہ دونو زلف یا دو سانپ یا دو شب ہیں اندھیاری
گرہ گر طرۂ طرار سے یکبار کھل جاوے
نہ وہ شکوہ جنوں تھا نہ آہ و زاری تھی
کیوں نہیں کوچہ تیرا رشک گلستاں ہووے
یہی ہے آرزو سر پر میرے تیرا قدم ہووے
گھٹنو کبھو چلے کبھی رہتے پڑے ہوے
مجھے ہے عشق میں مہوش کے ضعف و ناتوانی بھی
نہ پہر امیر دلابندہ پروری جانے
خون دل اشک کے کیوں ساتھ نہیں مل جاوے
میں جاؤں گا تیرے کوچے سے تاجان نہ جائے
گریار کی گلی سے کوئی جو ہم کو ٹالے
تیرے مکھڑے کے آگے کس طرح کوئی بشر ٹھیرے
دیکھ لی ہم نے میاں چشم نمائی تیری
انتظاری میں تیرے دل جو گنوایا ہم نے
نہیں تھا عشق کے اسرار سیتے کوہکن خالی
آشنا و یار کی اب مبرہن ہے دوستی
عالم دنیا سنے درد و الم ہے دوستی
ابرواں بس ہیں تیرے خمدار اٹھتے بیٹھتے
دل میں ہے اپنے وہ ہر دم یاد اٹھتے بیٹھتے
رباعیات
لباسی دوست پر مت کجیو دل اعتبار اتنا
مخمس
تن من میرو جو گئو اگن عشق نے آکے اٹھائی
رباعی
روٹھا ہے یار تجھ سے
چار بیت
خاتمہ دیوان افریدی بہ دین منوال ہے
فارسی کلام
میکنم آغاز بسم اللہ خالق را ثنا
غزل
صورتت راکسی نمود احیا
سلامت بماند دل از انزوا
عبث میپرسی ای زاہد ز عاشق دادۂ دلہا
احتیاج زر نمیدارم نہ محتاجیم ما
نمیرسد خط شادی دل الم زدہ را
یار ما حاضر ہر جا بود اغیار کجاست
دیدہ ام در عشق اشک پارسائی ریخت است
روز اول یاد باشد کردۂ اقرار چہ؟
از عدم آمدہ در دہر فتادیم عبث
ای بصورت انس پس شیطانیت کردار چہ
کجاست بادۂ ساقی پر از شراب سبوح
نکنم شکوہ کسی گہ ز دل و جان خود
آنکہ موہوم عدم را صورت اجسام داد
تاریخ و روزہ و ماہ و سن
آفریدی قادری قاسم علی
در جہیدنی رگ و پی نبض یابدان خود
باوجود وصل او در بیم ہجر انم ہنوز
واعظا وعظ تھی را بر شیدا مفروش
در حریمش غیر را دیدم ستم گردید حیف!
یار سویم آمد واز راہ چون گردید حیف!
جاہل آن باشد کہ جھلش شد بہق
عشق بازم لب قال کشادم بستم
بکی را با بکی در دہر با اشرار می بینم
ہوا ہوس بشبابی کہ داشتم دارم
دلی بذکر نگاریکہ داشتم دارم
شمع سان گو ہمہ شب سوز و گدازی دارم
بندۂ بی زروبی دام کہ بودم ہستم
شب ہجر کسی رسید چہ غم
دل مرا گوید کہ ور از ما سوا باید شدن
من کیم ہیچ ندانم تنہ بابایا ہوا!
بی زور ملک میرم تنہ بابایا ہو!
سینہ ام سوختۂ ہم دلم افروختۂ
تیر مژگان صنما سوی من انداختہ
سرفرازی تو مرا کی بہ نگاہی گاہی
بردۂ چون صنما جان بہ نگاہی گاہی
شوخ چشمی چہ خجل چشمک آہو کردی
سرچشمۂ فیض فال درویشان است
فارسی رباعیات
از مدت سال چار رفتہ
فتفرقات ۔ غزل ماتمیہ
تواضع
تواضع ازہمہ اشغال بہتر
رباعیات
آن عمارت ہست عمارت ساز نیست
AUTHORقاسم علی خان آفریدی
YEAR1971
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER پشتو اکیڈمی، پیشاور
AUTHORقاسم علی خان آفریدی
YEAR1971
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER پشتو اکیڈمی، پیشاور
سرورق
پیش لفظ
دیباچہ
مجھ کو آیا ہے نظر یار جب اغیار کے ساتھ
کرتا ہوں سدا شکر ادا پاک خدا کا
نہ ہوتا گر چہ دنیا میں محمد مصطفیٰ پیدا
ہزار افسوس عدم سے کیوں ہوا فانی جہاں پیدا
کیا فروغ بزم اس مہرو کا شب صد رنگ تھا
ندیم رند خرابات درد کش رہنا
جب سے پہلو سے میرے شوخ وہ خود کام گیا
معشوق کو بعاشق گر ربط ناز ہوگا
شب مری خاک پہ وہ شمع نگارا گزرا
یاد وہ دن کہ تجھے میل بہ اغیار نہ تھا
گر وہ عاشقاں میں جب کیا ہم نے شمار اپنا
پھر روز فراق یار آیا
میکشی کے لئے جب سرو خرامان اٹھا
جب تک کہ میری گھات میں وہ شرمگیں نہ تھا
بندہ پرور جو نہ پچھتائے گا
جس نے ہے گل کو رنگا بھیج بہ گلزار دیا
پانچ دن کو جو یہاں پر آگیا
گلی میں طرفہ اسکے جور برحال عاشقاں دیکھا
ہم نے دیکھا تھا جو کچھ وہ تو زمانہ نہ رہا
ایک عالم کو ترے عشق میں روتے دیکھا
یہ مشت خاک اپنے جہاں چاہے تہاں لیجا
کسی کے عشق سے پیدا اگر شیدا نہیں ہوتا
پسر اشراف کا فی الواقعی ابتر نہیں ہوتا
قصور مردم دنیا ہے جو یکسو نہیں ہوتا
ہوا ہے مے کی باعث سے جہاں میں نام شیشہ کا
عشق کا تیرے یہ دفتر نہ ہوا تھا سو ہوا
فاسق جو اگر عاشق دیوانہ ہوا تو کیا
بوالہوس نہیں یہ کہو عشق کو پہچانہ کیا
نہیں محتاج ہوں ریبار کے پیغام لانے کا
جب ستے بالی میں دل کے عشق کا دانہ پڑا
چلیں گے چھوڑ کہیں آہ یہ جہاں تنہا
جو کہ اس دنیا میں آکر سو گیا
اے دل اب عشق کی لے گوئی اور چوگان میں آ
نہ کسی نے بار پایا بمراد کار اپنا
تو جا طبیب ہوا عشق دلپذیر میرا
زلف کو الجھا کے سلجھانا بشانہ پھر کیا
کسی کی زلف میں جاکر کے ابتو دل میرا اٹکا
یہ نیاز و عجز اپنا پیر دکھلانے لگا
اب رخ دلدار پر آغاز خط آنے لگا
میں نہیں تنہا اس پر اس طرز اور انداز کا
مضغۂ لحم نہیں دل پہ ہے دل نام اس کا
ہر چند مجھے ناز سزاوار ہے تیرا
میں مدلل نہ تیری وصل پہ بیجا رویا
جسکو اس دہر میں دیکھا اسے گریاں دیکھا
دیکھا دل شوریدہ دیوانہ کہیں ایسا
مجھ کو اے یار بہ ہر شکل تو منظور ہے آ
جس نے میری دلربا کے مکھڑے پر ڈالی نقاب
قتل وہ کرتا ہے مجھ کو پاس یاری کے سبب
یا الٰہی کس طرح میرا سخن سن لے حبیب
اشقیا کو نہیں عاشق کا ہو ظاہر مطلب
مباح ہووے گی اس کے تئیں فرنگ شراب
کچھ اپنے کام نہیں آوے جام جم کی کتاب
کسی کے شوق میں خون جگر شراب کباب
ساقیا لا جلد میخانہ ستے جام شراب
فریاد غمزدے کی سن امشب تمام شب
دل نے دی شب جو کیا اس کا خیال آپ سے آپ
شب کو دھوکے سے میرے ہاتھ میں آیا تھا سانپ
شیشہ ساں دل میں پڑا ہائے رے بال آپ سے آپ
دیکھا ہے تیرا جب سے سراپاے قیامت
کون کہتا ہے کسے اپنے دلارام کی بات
کرے ہے گھر میں لطف اب یار پر اغبار یا قسمت !
نظر آتا ہے جو دنیا میں ہے معمور باکلفت
بزم آراستہ تھی شیشہ تھا اور جام تھا رات
جھمکڑا اپنے مکھڑے کا دکھادے کھول دے گھونگھٹ
صاف رکھ سینہ مصفا عشق میں مثل زجاج
روز شب کرتے ہیں اے دل تجھ سے چشماں الغیاث
غریب کیوں نہ کرے خاک کو بسر بھی آج
آج پھر رکھی ہے سر پر شوخ نے دستار کج
نہ ہو سکے دل بیمار کا کسی سے علاج
صورت یار کی کیا خوب درخشاں ہے آج
عشق بازاں کرو کچھ فرصت ہنگام ہے آج
دیدکر کھول کے آنکھیں مہ تاباں ہے آج
نہ کیجو عشق میں تو نفع اور نقصان کا لالچ
نیک و بد اپنے کو تو جان لے پہچان اوچہ
حدوث کیا سمجھتے تھے جب تھے قدم کے بیچ
کچھ نہ پوچھو میرے دل کی یارو گھبرانے کی طرح
برز میں دیکھے فلک سے جو میرے یار کی طرح
دکھا نہ مجھ کو تو صیاد زلف دام کی طرح
جو لاوے باد صبا یار کا پیام صباح
جس طر دیکھو ادھر گل ہے گل گلزار سرخ
آوے گر اختیار میں میرے وہ یار شوخ
کیا خبر کس نے رکھا نام فلک کا جلاد
رکھے دنیا سے دنیا دار مقصود
دلا تو سرو میں اس باغ کے ثمر کو نہ ڈھونڈ
اپنے جاناں کو اے جان اسی جان میں ڈھونڈ
مکتب عشق میں یعنی جو پڑھا ہو تنفیذ
نہ تو ہے گبرنہ ہندو نہ مسلماں کاغذ
گھڑی گھڑی میں تیری دوستی پیار ہے اور
چھوڑ اسکا عشق ڈھونڈھوں مہوشان چند اور
بہ طرف مشتاق گاہ گاہے تجھے مناسب گزر کیا کر
لباس عیش اے دل چھوڑ ترک خود نمائی کر
ہے تعدی آسماں کی عاشقاں زار پر
غیر سے الفت جو رکھتا ہے تو میں اور یار اور
پارسا تو پارسای پر نہ کر اتنا غرور
جس گلستاں میں کہ سرو اسکا نہ ہووے جلوہ گر
درد دل کا کسے کروں اظہار
بے گل مکھڑے تیرے کیا باگل و گلزار کار
جی رہے یا نہ رہے پر قدم یار نہ چھوڑ
جاے افسوس نہ عقبیٰ کا کیا کام ہنوز
نہ پایا اب تلک اس شوخ کا نشان ہنوز
عشق کی کوئی اگر سیکھ لے گر مجھ سے تمیز
بوالہوس عشق میں کھیچے ہے پشیمانی ژاژ
کہاں کا ننگ رہا اور کہاں رہا ناموس
ہوا ہے مجھ سے دل آزردہ کیوں حبیب افسوس
ہوا فراق میں مہرو کی بے طرح وسواس
شرب غم عاشقوں کو بس ہے بس
نیم بسمل نہیں رہ سکتا ہے بیمار خموش
جو کہ بیٹھا ہو صمنم غیروں میں دو چار کے پاس
بیوفائی نہ کر اے شوخ ستمگار خموش
دبک پر عشق کے اے دل تو نہ رکھنا سرپوش
صحبت یار مجھے بے رخ اغیار ہے خوش
تیقن کیجیو اے دل کہ بیخ ایمان ہے اخلاص
کتنی مدت ہوئی کرتے بھی طبیبوں سے عرض
نہیں ہے میرے تئیں کوئی بے حیا سے غرض
اہل معنی کے تئیں فانی ہے دنیا کی نشاط
بس ہے اے یار تیری زلف کا یک تار فقط
مجھ سا ناشاد کوئی تجھ سے جو ہو شاد غلط
پھسنا جو عشق میں اے دل تو اب خدا حافظ
بلبلوں کو نہ ہو گل گر نہیں گلزار سے حظ
غیر میرے کون میرے یار سے پاوے ہے حظ
جتنا نہ میرے تئیں اپنا تو ہنر واعظ
ہے کسے غرض سنے کون ہماری شارع
کیا فروغ حسن اپنا شام دکھاتے ہے شمع
عمر گزری سیر میں میری یہ آبادی وراغ
سر کو اپنے دے کے آتش کس کی فریادی ہے شمع
کوئی دل کو میرے کرتا نہیں تسکیں طفف
ایک واحد ہے شمار اس کے بہت ہیں آلاف
زلف میں تیری میرا دل ہے صنم یوں تعلیق
سو طرح میں نے لگائی آہ بازی جان تک
پائی نہ بیمار عشق نے آرام جانی اب تلک
کفر عشق آیا بدل مجھ مومن دیندار تک
عاشق سوختہ دل خط صنم دوسو ایک
ماتم رنج و الم غم ہیں بہم چاروں ایک
جس طرح موت قیامت ہے حشر تینو ایک
شوخ کی محفل میں آکر کیوں گیا اتنا بہک
اے دلا دل نہ کبھی دہر کے جنجال میں ڈال
اے فلک تو مثل بوقلموں بدلتا ہے جو رنگ
خوبرو داں نے گلے اپنے میں ڈالا ہار گل
جون بصد محنت بمدت کردہ بودم یار دل
آج کی شب ہے تپ غم سے میرا بیتاب دل
افسوس کیا کروں کہ نہیں ہے قرار دل
عشق میں کیونکہ سلامت رکھوں یہ جاں بہ بغل
ابر سان ہر چند رکھا چشم کو پر آب ہم
قسمت کے لکھے سوا فزودن معلوم!
گر چاہے اس شوخ کے تئیں رام کریں ہم
کیا طرفہ تماشا ہوئے بین دو عدم ہم
نہیں معلوم ہے کس نظروں میں منظور ہیں ہم
اگر شمع ہوئے تو گل گئے ہم
بر زمیں زیر فلک ہر چند ہیں آباد ہم
گندم کے تئیں جو کھا گئے ہم
کسی سے ہو نہ سکا ہے کسی کا کام تمام
کسی کی شادی سے مطلب نہ مجھ کو غم سے کام
قول وصلت کا کہاں وعدہ دیدار کہاں
بسے ہے گرچہ جہاں پر اسے قیام کہاں
کون سے شوخ ستمگر کا ثنا خواں ہوں میں
ایک ماہرو پڑا تھا ہماری نظر کہیں
دو جہاں مجھ میں پر کنار ہوں میں
دل دادہ تیرے حسن کے آغاز کا ہوں میں
تیرا تن صاف جیوں آئینہ جیسے شیر پانی میں
رات اس کافر کے کوچے میں فغاں رکھتا تھا میں
مجھے جز دختر رز کس کی جستجو ہے شیشہ میں
دل ہمارا ہے وہ ایک جانب گلشن جس میں
شراب ناطقہ کیا پر تو مطلق ہے شیشہ میں
حقیقت کی کھولے گر آنکھ دو عالم ہے شیشہ میں
سوجتن سے میں کہا اسکو کہ ایک جان ہمیں
نہ جا بکعبہ تیرا مدعا کہاں پہ نہیں
تجھے حال زار پر اے صنم کسی کے ذرا تو نظر نہیں
شوخ کے کوچے میں عاشق کو تو ماوائی نہیں
اہل دنیا سے مجھے دوستو کچھ کام نہیں
غم ہے جوں بحر غمگسار نہیں
کسی کی بزم میں جوں شمع تن اپنا جلاتے ہیں
اس شوخ کے جب گھر سے اقدام نکلتے ہیں
جو شخص مدعا کو پہچان جانتے ہیں
نظروں میں اپنی نظریں کسی کی سمائیاں ہیں
اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
تیری ہجرت سے جسدم سسکیاں بھر بھر کے روتا ہوں
کیا کروں رخ نہ تیرا اے بت رعنا دیکھوں
سب خلق میں خدا کی مقصود ہیں تو ہم ہیں
رہا نہ صبر و قرار اور کیا میں چارہ کروں
کسی سے میں تیری وصلت کا التجا نہ کروں
مختلط غیر ہو اور میں رہوں نالاں تجھ بن
تلاش مطلب اے مدعی خطا ہے یہاں
باندھے ہے آج وہ مہوش پر فن دامن
لخت دل جب میرے مژگان کا فشار دامن
مدتاں گزری پیاری تیری سنتے گالیاں
کیا قیامت ہے یہ پر نشہ خماری انکھیاں
اضطراب اے غافل دل خواب سے بیدار ہو
بگفتہ غیر کوں مجلس سے تیرے یار اٹھ جاؤں
مسلخ عشق میں تیرے آئے ہیں ہم جو ہو سو ہو
عشق کی ہم پئیں گے مے روز جزا جو ہو سو ہو
ہو محبت جسکی تجھ کو تجھ سے اسکو عار ہو
راضی ہوں میں رضا پر رب تیری جو رضا ہو
طالب حق ہے اگر تو صبحدم بیدار ہو
سناوالبعث یہاں کیسی نظامت ہو تو ایسی ہو
بیوفا بیرحم ایسا یار سنگیں دلی نہ ہو
پینا شراب تب جو غم این و آں نہ ہو
مرحبا کیجے میاں ہم سے بھی سر بازوں کو
کون باہر کر سکے پردہ سے اس دلدادہ کو
یہ سر شام سے اڑتا ہے جو جل جانے کو
خوں ہٹا مژگاں ستے کہتا ہوں اس جلاد کو
کینہ نہ رکھ تو دل کے بیچ خاطر باصفائے کو
میرے دکھ پانے سے ہر چند کچھ آگاہ ہے اسکو
ہماری بات مانو یار مستانے کو مت چھیڑو
اے دل رلا نہ اس قد انکو ہجر سے تو
مت ہو ملوث اسقدر اہل چشم سے تو
یار کی زلف مکھڑے پر مار کے ہیں نشان دو
کھول آغوش گلے لگ کے میری جان کو دیکھ
لے گیا اپنے سے وہ مجھ کو بیک بار ہے یہ
غرور یار کا اور میرا انکسار نہ پوچھ
دل کے دینے کا بتاؤں میں سبب کیا کیا کچھ
اس پری رو پہ جا پڑی جو نگاہ
آہ دل تیرے تئیں جس طرح میں نے پالا
نہ کر غرور تن و جاں رہے رہے نہ رہے
مآل اپنے کی اے دل کی خبر رہے نہ رہے
اس دل کو دل کہوں کیا جو سنگ ہے سو یہ ہے
جس دل سے دل یہ اٹکا وہ جان ہے سو یہ ہے
مجھے تو رسواہی ایک دلبر نے عشقبازی سے کیا کیا ہے
یہ دل تقدیر سے آزاد ہے ونہ پند چاہے ہے
ہے خزاں عمر کا افسوس غم یار ووہی
شہر میں اب تو عجب شور ہے غوغا بھی ہے
آخر کا حال اپنے ز اول نظر میں ہے
جو میرا لے گیا دل کون وہ انسان ہے کیا ہے؟
میرے سینہ میں امر روح یا وہ جان ہے کیا ہے
یہ چہرہ مصحفی پر زلف الف لام ہے ہے کیا
لب جان بخش وہ جب بر سر بیداد آوے ہے
جلاتا شمع پر پروانہ گر چہ اپنی چھاتی ہے
شب وصال ہے پر دل کدر ابھی سے ہے
ضعیف ہم نہیں پر تن رقق ابھی سے ہے
کسی کے وصل میں ہجرت کا غم ابھی سے ہے
میں ہوں دیوانہ کسی کا کون سمجھاوے مجھے
جب سے اس عالم میں خالق نے کیا پیدا مجھے
وہ شوخ شب کو ہوا خواب میں دو چار مجھے
کعبہ بتخانہ میں جس کی تھی جو جستجو مجھے
ہم کس سے حال اپنا یہ درد کہیں گے
موہوم زندگی سے جس دم کہ ہم ہٹیں گے
اس تن عناصری میں جس دم کہ دم نہ ہوں گے
سنتے تھے کہ دنیا ہے عجب جائے فزا کی
ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
محبت ماسوا کی جس نے کی گوری کلوٹی کی
تیغ ابرو کے تلے تیرے جو ہم سردھر چکے
جب کسی نے آن کر دل سے میرے پر خاش کی
بات کہتا ہوں پیارے میں تجھے اب دور کی
مجھ پاس ایک شب کو جو وہ یار رہ سکے
ماہ وش دیکھے تھے در گبر مسلمان کئی
نہ کھولی تجھ سے گرہ خاطر یاران کبھی
کسی کے عشق میں حالت بہ تنگ آئے جدائی سے
ہم نہ محفوظ ہوئے ہیں کسی شے سے ایسے
شیخ جیو آتے ہیں دیکھو تو حرم سے ایسے
ہر چند نہ مطلب نہ غرض کام کسی سے
فایدہ اکثر سنا ہے مردم منفرد سے
ہوا ہے شوخ میرا جب سے چیں جبیں مجھ سے
ہوا کب اے فلک میرا حصول مدعا تجھ سے
نہ تھا آزردہ جیسا اب ہے ویسا پیشتر ہم سے
یہ دونو زلف یا دو سانپ یا دو شب ہیں اندھیاری
گرہ گر طرۂ طرار سے یکبار کھل جاوے
نہ وہ شکوہ جنوں تھا نہ آہ و زاری تھی
کیوں نہیں کوچہ تیرا رشک گلستاں ہووے
یہی ہے آرزو سر پر میرے تیرا قدم ہووے
گھٹنو کبھو چلے کبھی رہتے پڑے ہوے
مجھے ہے عشق میں مہوش کے ضعف و ناتوانی بھی
نہ پہر امیر دلابندہ پروری جانے
خون دل اشک کے کیوں ساتھ نہیں مل جاوے
میں جاؤں گا تیرے کوچے سے تاجان نہ جائے
گریار کی گلی سے کوئی جو ہم کو ٹالے
تیرے مکھڑے کے آگے کس طرح کوئی بشر ٹھیرے
دیکھ لی ہم نے میاں چشم نمائی تیری
انتظاری میں تیرے دل جو گنوایا ہم نے
نہیں تھا عشق کے اسرار سیتے کوہکن خالی
آشنا و یار کی اب مبرہن ہے دوستی
عالم دنیا سنے درد و الم ہے دوستی
ابرواں بس ہیں تیرے خمدار اٹھتے بیٹھتے
دل میں ہے اپنے وہ ہر دم یاد اٹھتے بیٹھتے
رباعیات
لباسی دوست پر مت کجیو دل اعتبار اتنا
مخمس
تن من میرو جو گئو اگن عشق نے آکے اٹھائی
رباعی
روٹھا ہے یار تجھ سے
چار بیت
خاتمہ دیوان افریدی بہ دین منوال ہے
فارسی کلام
میکنم آغاز بسم اللہ خالق را ثنا
غزل
صورتت راکسی نمود احیا
سلامت بماند دل از انزوا
عبث میپرسی ای زاہد ز عاشق دادۂ دلہا
احتیاج زر نمیدارم نہ محتاجیم ما
نمیرسد خط شادی دل الم زدہ را
یار ما حاضر ہر جا بود اغیار کجاست
دیدہ ام در عشق اشک پارسائی ریخت است
روز اول یاد باشد کردۂ اقرار چہ؟
از عدم آمدہ در دہر فتادیم عبث
ای بصورت انس پس شیطانیت کردار چہ
کجاست بادۂ ساقی پر از شراب سبوح
نکنم شکوہ کسی گہ ز دل و جان خود
آنکہ موہوم عدم را صورت اجسام داد
تاریخ و روزہ و ماہ و سن
آفریدی قادری قاسم علی
در جہیدنی رگ و پی نبض یابدان خود
باوجود وصل او در بیم ہجر انم ہنوز
واعظا وعظ تھی را بر شیدا مفروش
در حریمش غیر را دیدم ستم گردید حیف!
یار سویم آمد واز راہ چون گردید حیف!
جاہل آن باشد کہ جھلش شد بہق
عشق بازم لب قال کشادم بستم
بکی را با بکی در دہر با اشرار می بینم
ہوا ہوس بشبابی کہ داشتم دارم
دلی بذکر نگاریکہ داشتم دارم
شمع سان گو ہمہ شب سوز و گدازی دارم
بندۂ بی زروبی دام کہ بودم ہستم
شب ہجر کسی رسید چہ غم
دل مرا گوید کہ ور از ما سوا باید شدن
من کیم ہیچ ندانم تنہ بابایا ہوا!
بی زور ملک میرم تنہ بابایا ہو!
سینہ ام سوختۂ ہم دلم افروختۂ
تیر مژگان صنما سوی من انداختہ
سرفرازی تو مرا کی بہ نگاہی گاہی
بردۂ چون صنما جان بہ نگاہی گاہی
شوخ چشمی چہ خجل چشمک آہو کردی
سرچشمۂ فیض فال درویشان است
فارسی رباعیات
از مدت سال چار رفتہ
فتفرقات ۔ غزل ماتمیہ
تواضع
تواضع ازہمہ اشغال بہتر
رباعیات
آن عمارت ہست عمارت ساز نیست
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔