سرورق
محتاج نہیں قافلہ آواز دار کا
پیام دوست ہے ہر قول نام آور کا
جو تجھے امید وار ہوگا
اسکے در پر جو مجھ کو بار ہوا
عیسی کا بھی علاج کئی بار ہوچکا
پھر حال کچھ اچھا اپنا نظر آیا
بڑھتا گیا جو رشک تو اخلاص کم ہوا
کیا قیامت کا دن بڑا ہوگا
وہاں فتنہ ہر اک وقت میں کیا کیا نہیں اٹھتا
نام سے خوش ہے بدیکی نہیں پروا کرتا
کبھی خون ہوتے ہوئے اور کبھی جلتے دیکھا
وعدہ گر روز کئے جائے گا
صنم کی در پہ مبارک ہو مجھ کو مر لینا
لے محتسب نے گہر کی تلاشی تو کیا ہوا
ساتھ سونے میں بھی ہو شرم سے چپ کیا کہنا
جلد جم جاتا ہے ہر شخص کا نقشا کیسا
پروہ در تھا غم پنہاں میرا
فرقت بند رہا ہی تصور وصال کا
آیا ہی ذکر باغ میں جب تیری چال کا
غم اسکا کیا کہ وہ دلالہ پر خفا ہوگا
آبرو کیا پیرہن جب بے گریبان رہ گیا
اٹھا صحرا میں ایسا فتنہ میری جوش سودا کا
کیا تھا جو تو گلی کا مری ہار ہو گیا
نہ کبھی کوئی خط آیانہ پیام یار آیا
دل سے اے جانکی دشمن نہ اتارا ہوتا
کیوں کہے کوئی تمنے کیا کیا
جوش کیوں مر کئی پر زخم کہن میں آیا
میری نالوں سے مشبک چرخ سارا ہو گیا
دھوکے بالوں کو کھڑی ہوکے سکھانا تیرا
کل تو وہ حضرت یوسف سے ہوے تھے گستاخ
میں کیا خوش انکے خواب میں آنے سے ہو گیا
کام اب رشتہ سوزن سے چلی یہاں کس کا
آج ان سے پھر احوال دل زار کہوں گا
رات جانے کی نہیں دن بھی اگر یہاں ہوگا
بے پردہ آکے کل مجھے صورت دکھا گیا
مہ دو ہفتہ خوبی میں وہ دو چند ہوا
میں ترا آئینہ ہوں جو رنگ وہاں ہو جائیگا
سچ کہتی ہو سچ ہی کہ زمانہ نہیں اچھا
میکدے میں نشے سے جب سرفرو ہو جائیگا
ہجوم غم سے ہو ا تنگ حوصلہ دل کا
غیر سے دلدار خفا ہو گیا
چلا ہے پے بہ پے تیر نگہ اس آفت جاں کا
گہ مہ تابند وگہ مہر درخشاں ہو گیا
ہے ہر اک انجام آغاز اک نئی انجام کا
ہے عدم سے ساتھ میرا اور تیرے تیر کا
ہم ہیں جس بت کی پجاری ہے وہ پتلا نور کا
صفا میں ایک نقشہ ہے ترے رخ اور مرے دل کا
جب وہ بغرم خانہ چمن سے نکل گیا
ستم میں شہرہ جو وہ آفت زنار ہوا
تو تعلی پر دھواں آیا ہماری آہ کا
خدنگ نالہ سے آپ اپنے میں فکار ہوا
چارہ گر ہے عشق کی آزار کا
غضب ہے سامنا چشم حیا کا
جب شبکو میرا غل نہ سنا سر گراں ہوا
مستلزم سپاس ہے شکوہ نصیب کا
نہ کہہ کہ گل نہیں ہوتا ہے خار سے پیدا
تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
ابر سیہ اٹھا ہے بڑی زور شور کا
روئیں کیا ہم کہ نہیں یار پہ قابو اپنا
مورد صور کا جبکہ ہیولی ٹہر گیا
دشمن سے ربط ودست کا تغیر ہو گیا
ہم ترے در پہ رہے تو وہ کیا رہنا
مخالف جام مے ہجراں میں ہے طبع مشوش کا
کیونکر کہوں رحم انکو کسی پر نہیں آتا
انداز مناہی دل لگی کا
سو قدم پر سے ہوا بسمل برا ہو تیر کا
گہر کر کے خاک رہ کے برابر اگر ہوا
بر سر لطف آج چشم دلربا تھی میں نہ تھا
پھول ہیں گل سناہی جو آنا بسنت کا
ہے جنوں میں ضعف ایسا ابتو دامن گیر پا
اٹھا پردہ نہ میرے آگے اس کی روی روشن کا
آگیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا
ردیف البا
ردیف باے فارسی
کچھ غم نہیں ہے صاف مجھے گر دیا جواب
کہنے کا نہ مانئے برا آپ
سوئے ہیں آکے باغ میں کیوں اپنی گھر سے آپ
ہے شب وصل نہ ہو کاش سحر آج کی رات
ردیف تاے فوقانیہ
مریض غم کو عیادت ہے ناگوار بہت
بہا ہے بسکہ شب انتظار کی صورت
تھے آسمان پہ میری چرہائی تمام رات
ہم نے سو سو طرح بنائی بات
ہے شب غم کی بڑی خوف وخطر کی صورت
ردیف تاے ہندی
صبح شب وصال میں آواز پاکی چوٹ
ردیف ثاے مثلثہ
جاں فشانی کا وہاں حساب عبث
جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
جھپکا نہیں ہی دیدہ شب زندار آج
ردیف جیم تازی
جب حلق سے گلاب نہ اترے تو کیا علاج
کرو دن پہ دن کو زیر زمیں وقت شام کوچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے حطی
پوچھوں جو پاؤں قرب مسیحا کس طرح
ردیف خاے معجمہ
رشک سے لاغر نہ کیوں ہو جاؤں میں مو کی طرح
آنکھ میں ڈوری عجب ہیں یار سرخ
قتل پر غیر کی باندھو نہ کمر میرے بعد
کوئی یوں عشق میں رسوا نہ ہوا میرے بعد
صیاد کو ہوا ہے مرا نالہ یہاں پسند
ردیف دال ہندی
دل ہو تو کیجے آہ کی تاثیر پر گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
جب لکھا ہم نے خط اشکوں سے ہوا تر کاغذ
دوست نے سونپ دیا ہے اسے اپنا تعویذ
اسیری میں بوقت نزع آکر
ردیف راے مہملہ
ملجائیں ادحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
قیس دیوانہ بنا عاشق لیلا ہوکر
نہیں حساب میں نسرین ونسترن کی بہار
چڑھائی ایسی ہی کس نامراد کی گھر پر
پیش جاے تانہ میری خوں کا دعوی یار پر
سنبھال واعظ زبان اپنے خدا سے ڈر اک ذرا حیا کر
جس طرح تیغ کہ کی معرکہ میں جاں جھک کر
ردیف رائے ہندی
اغیار کے لئے ہے مرا یار سے بگاڑ
گہر ہے مجھ سوختہ جان کا کرہ نار کے پاس
ردیف زاے معجمہ
ردیف سین مہملہ
ہو کیوں نہ الگ سبحہ وزنار کی آواز
ردیف صاد مہملہ
یہی ہے گر مری بخت سیاہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
ہے آینہ خالی میں تراذوق فزا رقص
ردیف ضاد معجمہ
یہاں نہ بالش کی تمنا ہے نہ بستر سے غرض
ردیف طاے مہملہ
غیر نے پڑھ کے کیوں سنایا خط
کرتا ہوں خون سے دامن قاتل کی احتیاط
ردیف ظاے معجمہ
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
گالیاں دینے میں نہیں زنہار لحاظ
ردیف عین مہملہ
ہے سخت قضیہ دل ترا بیمار وقت نزع
پتھر کا بت ہے وہ نہیں جس کے جگر میں داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
کھینچو تو ہے یہ ڈر کہ کہیں کھنچ نہ جائے زلف
کہاں سے لاے گا آہ شرارہ بار چراغ
مٹی نہ وصل میں بھی کلفت زماں فراق
ردیف قاف
ردیف کاف تازی
ہے کبود اسکی طیلساں کا رنگ
ہم نشیں صورت ارایش عالم کبتک
سینے میں میرے تم کو عبث ہے گمان دل
ردیف لام
بانگپن سمجھے ہیں قابو میں نہ آنا شب وصل
جبر سے میں نےکیا ہے ان کو مہمان آج کل
کی ہے آراستہ انجم نے فلک پر محفل
ردیف میم
پیری میں بھی بے ولولہ شوق نہیں ہم
کیا فائدہ ناحق ستم اتنا نہ کرو تم
کلام سخت کہہ کہہ کر وہ کیا ہم پر برستے ہیں
ان دنوں اک شمع رو کے گھر کی ہوں تعمیر میں
کم ہے علی کی مدح میں ہم جو غلو کریں
فسانہ ستم ہجر ہے سوال نہیں
وہ جب ایسے اپنا پروا کریں
لیکے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
خبر آئی تھی کہ وہ مست شراب آتے ہیں
اپنا اپنا رنگ دکھلاتے ہیں جانے چوڑیاں
وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں
کہاں ہے تو کہاں ہے اورمیں ہوں
یہ قیامت ہے کہ نیمار کو مشکل سمجھیں
رونے کی یہ شدت ہے کہ کھبرا گئیں آنکھیں
دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر ٹپکیں
سرہاے خونچکاں ہیں پڑے کوے یار میں
بھید کی معلوم کرنے کے لئے غمخوار ہیں
کم نجانو لٹوں کو کیسو میں
سفینے عرض ناپیں عمق کو ہم قطع کرتے ہیں
خوش ہوں کیا اک جھاڑ روشن بن کے بزم طور میں
جی چھوڑ دیں گے دونو چل تو سہی چمن میں
جس میں نہ لخت دل ہو وہ دامان ہی نہیں
قیامت ہے رہا وہ شوخ ومساغدوبرسوں
مردہ زندوں کو تری آن سے ہم دیکھتے ہیں
ردیف واو
پھر نہ کہئے گا سنا کر مجھ کو
عبث آئینے میں امد شد دم دیکھتے ہیں
ہم نہیں چاہتے کہ دولت ہو
کہتے ہو جائیں گے پھر کیوں نہیں جاتے جاؤ
کم سمجھتے نہیں ہم خلد سے میخانے کو
کہاں کئے ہیں مشک دل وجگر دیکھو
تم اپنے حسن کو کیا اے نکارسمجھے ہو
بعد مدت مجھ سے کہتے ہو کہ کیا بیمار ہو
یہ دماغ اسکو کہاں ہے کہ سنوارے گیسو
چاہتا ہے دیکھنا گر صورت تسلیم کو
تکلف کیا ہے گر صورت میں مہرومہ سے بہتر ہو
اور کیا نالہ وفریاد سے حاصل مجھ کو
ہے اک لگا و نکہت زلف دوتا کے ساتھ
ردیف ہائے ہوز
مثل پے لپٹے ہوئے ہے رگ جاں تیر کے ساتھ
میں یہ نہیں کہتا کہ نہیں اسمیں اثر کچھ
نہیں غم جانکا شور اسکے در پر جو مچایا ہے
ردیف یاے تحتانی
انداز نرالا ہے ادا اور ہی کچھ ہے
لیکے دل زلف دوتا لوٹ کئے
سحر پہلی جو بو زلف دوتا کے
پھر بڑے زور سے ہیں جھوم کے بادل آئے
اگر یہ انجم وافلاک سب بدل جاتے
ربع مسکوں میں ہے آباد زمیں تھوڑی سی
عاجز وہ نہ کیوں آے بھلا بے دہنے سے
ہے پس ازنوروز فصل جانقر ابرسانکے
ہے دلاویز وفرح بخش ہوا ساون کے
وفا کی ہم نے اور تم نے جفا کی
ان کو گھر کا پتا دیا میں نے
صند سے وہ بزم مے میں نہیں دیتی جا مجھے
دیتا میں سر جھکا جو وہ تلوار کھینچتے
کبھی تو سوچیے دل میں ذرا خدا کے لئے
کیوں اس دہن سے بوے کا مجھ کو سوال ہے
دشمن کا بیان دوست بھلا کیا مرے آگے
نہیں کچھ وجہ رنجش کے اگر ہو بھی تو بیجا ہے
تھی غرض بسکہ ہمیں آپکی گھر آنے سے
کیوں نہ ہوں شرمندہ میں غمخوار سے
رونے سے ہاتھ اے دل دانا اٹھایئے
ہم کو ہوس جلوہ گہ طور نہیں ہے
کس مہروش کا آج اسے انتظار ہے
پھر جائیں کر اس سے ہم تو کیا ہے
خستہ پیکاں غم ہر اک جوان وپیر ہے
کیوں پوچھوں دیر کیوں تجھے اے نامہ بر ہوئے
کہتے ہیں تجھے لوگ کہ تو سرور داں ہے
یہ تو مانا کہ قیامت ہوگی
کہہ رہے ہیں مرے غمخوار خدا خیر کرے
اگر فقیر کی حاجت روا نہیں کرتے
کہا میں نے کہ بیدل ہوں کہا یہ قول باطل ہے
سمجھتے لوگ ہیں کہنے سے بیقرار کسے
دیکے دل مل کئے دلبر کی طبیعت مجھ سے
کب میں نے کسی بات کی تکرار نکالی
ہم کو بے چینی میں بھی آرام ہے
ان بتوں کو تو پری چہرہ بنایا تو نے
بناے عمر سے اٹھتا غبار دیکھ چکے
یوں تو چھیڑ انکو ہر کسی سے ہے
اک جہاں کشتہ انداز خود آرائی ہے
گزریگی شغل حیلہ ترا شیمیں شب مجھے
شب کو مہ دو ہفتہ کی تنویر دیکھ لی
ہے اندھیری اور آدھی رات ہے
اے بے سبب کشندۂ خلق آفریں تجھے
کھینچو نہ دل سے تیر کو اس پیچ وتاب سے
بے بادہ ہم سے کب وہ بت عشوہ کر کھلے
پھبتے کہو نہ تم رگ ابر بہار کے
جبکہ جاناں سے محبت ہے مجھے
نہ تم سے توقع یوں عدو کے دم میں آنے کی
آگے ہے کا سا طور ہے کیا ابکے بار بھی
ہم انکے نظر میں سمانے لگے
شاکر ہوں کیوں نہ ہم روش روزگار کے
ستم کرو ہم پہ بے تحاشا لحاظ کس کا ہے خوف کیا ہے
اس سے کیا بحث کہ ہوگی شب فرقت کیسے
خون تن عاشق بیدل میں کہاں رہتا ہے
دل میں ناوک ترا ترا زو ہے
کچھ اپنے جان وتن کی نہیں ہے خبر مجھے
اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے
گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
کیوں کہوں اس سے کہ تو میرا گریباں چھوڑ دے
قاتل آیا نہیں کہتے ہیں کہ آرام میں ہے
تجھے کیوں کہوں زندگانی کسیکے
دھمکائیں اسے کیا کہ ترے در سے اٹھیں گے
گلا کیونکر نہ کاٹیں جن کو ذوق جانستانی ہے
قبا کیا چست تن پر سرو کی ہے سبز مخمل کے
جفا ادھر سے اگر بیشمار باقی ہے
سراسر حال دہاں کب معرض اظہار میں آئے
ایسی اے مہر کف پا ترے نورانی ہے
اک پری رو کا طلبگار اک پری رخسار ہے
رنگ فق منہ خشک گویا عشق کا ازار ہے
قاضی کے منہ پہ مارے ہے بوتل شراب کی
ٹھنڈی ہے برق شوخ جمالوں کے سامنے
ہر انجمن میں شان اسے خود نما کی ہے
آئے پسند انکو جو رنگت بسنت کے
قسمت نے پھر بہار دکھائے بسنت کے
گھر کی دیوار ہے اشکوں سے نہیں بیٹھ گئے
اک زمیں بار محبت سے نہیں بیٹھ گئے
کہتے اگر کہ طرز ستم ناپسند ہے
کیوں غم تپ غم میں دغا کا ڈر نہ ہو تدبیر سے
یہاں صبح وشام دھیان مرا نامہ بر میں ہے
ردیف دال مہملہ
مخمسات
سہرا
در منقبت حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ
تسلیم ہے حسین علیہ السلام کو
سلام
اسے سلام کہ دریا پہ تشتہ کام رہے
مجرا ہے اسے جس کے ثنا خواں ہیں ہزاروں
جب وقت سلام آنکھ مری اشک فشاں ہو
ہاں مجرئے امام سپہراستانکو دیکھ
خستہ خنجر ستم کو سلام
حضرت شبیر کو پہنچی سلام
درود اس شاہ عالی آستاں پر
یوں تو ہو جاتا ہے ہر اک عیش وعشرت کا شریک
مجرا اسے جو خستہ دل وسوختہ جاں ہے
اس پر سلام قبلہ ہے جو نو امام کا
مجرئے سنتی ہیں کل صبح وہ ساماں ہوگا
سلام اس شاہ دیں کو جس نے بڑھ کر اہل عالم سے
منہ سے گر وصت رخ شاہ نکل جاے ابھی
کل روپ اور دیکھیے کا کائنات کا
کسی نے سجدے سے پوچھا تھا امتحاں کے لئے
مجرئے وقت سفر شہ نے کہا صغرا سے
اس شاہ کے سلام کا مجھ کو خیال ہے
جب شاہ کو ہلال نے جھک کر کیا سلام
سلام اس خستہ پر تھا جس کا تن زخموں سے صد پارہ
میرا سلام پہنچے مہر سپہر دین کو
بندگی
ترکیب بند
بند دوم
بند سوم
بند چہارم
بند پنجم
بند ششم
بند ہفتم
رباعیات
مثنوی
واسوخت
واسوخت دوم
واسوخت سوم
واسوخت چہارم
قصیدہ در منقبت
قطعہ تاریخہا
واسوخت پنجم
سرورق
محتاج نہیں قافلہ آواز دار کا
پیام دوست ہے ہر قول نام آور کا
جو تجھے امید وار ہوگا
اسکے در پر جو مجھ کو بار ہوا
عیسی کا بھی علاج کئی بار ہوچکا
پھر حال کچھ اچھا اپنا نظر آیا
بڑھتا گیا جو رشک تو اخلاص کم ہوا
کیا قیامت کا دن بڑا ہوگا
وہاں فتنہ ہر اک وقت میں کیا کیا نہیں اٹھتا
نام سے خوش ہے بدیکی نہیں پروا کرتا
کبھی خون ہوتے ہوئے اور کبھی جلتے دیکھا
وعدہ گر روز کئے جائے گا
صنم کی در پہ مبارک ہو مجھ کو مر لینا
لے محتسب نے گہر کی تلاشی تو کیا ہوا
ساتھ سونے میں بھی ہو شرم سے چپ کیا کہنا
جلد جم جاتا ہے ہر شخص کا نقشا کیسا
پروہ در تھا غم پنہاں میرا
فرقت بند رہا ہی تصور وصال کا
آیا ہی ذکر باغ میں جب تیری چال کا
غم اسکا کیا کہ وہ دلالہ پر خفا ہوگا
آبرو کیا پیرہن جب بے گریبان رہ گیا
اٹھا صحرا میں ایسا فتنہ میری جوش سودا کا
کیا تھا جو تو گلی کا مری ہار ہو گیا
نہ کبھی کوئی خط آیانہ پیام یار آیا
دل سے اے جانکی دشمن نہ اتارا ہوتا
کیوں کہے کوئی تمنے کیا کیا
جوش کیوں مر کئی پر زخم کہن میں آیا
میری نالوں سے مشبک چرخ سارا ہو گیا
دھوکے بالوں کو کھڑی ہوکے سکھانا تیرا
کل تو وہ حضرت یوسف سے ہوے تھے گستاخ
میں کیا خوش انکے خواب میں آنے سے ہو گیا
کام اب رشتہ سوزن سے چلی یہاں کس کا
آج ان سے پھر احوال دل زار کہوں گا
رات جانے کی نہیں دن بھی اگر یہاں ہوگا
بے پردہ آکے کل مجھے صورت دکھا گیا
مہ دو ہفتہ خوبی میں وہ دو چند ہوا
میں ترا آئینہ ہوں جو رنگ وہاں ہو جائیگا
سچ کہتی ہو سچ ہی کہ زمانہ نہیں اچھا
میکدے میں نشے سے جب سرفرو ہو جائیگا
ہجوم غم سے ہو ا تنگ حوصلہ دل کا
غیر سے دلدار خفا ہو گیا
چلا ہے پے بہ پے تیر نگہ اس آفت جاں کا
گہ مہ تابند وگہ مہر درخشاں ہو گیا
ہے ہر اک انجام آغاز اک نئی انجام کا
ہے عدم سے ساتھ میرا اور تیرے تیر کا
ہم ہیں جس بت کی پجاری ہے وہ پتلا نور کا
صفا میں ایک نقشہ ہے ترے رخ اور مرے دل کا
جب وہ بغرم خانہ چمن سے نکل گیا
ستم میں شہرہ جو وہ آفت زنار ہوا
تو تعلی پر دھواں آیا ہماری آہ کا
خدنگ نالہ سے آپ اپنے میں فکار ہوا
چارہ گر ہے عشق کی آزار کا
غضب ہے سامنا چشم حیا کا
جب شبکو میرا غل نہ سنا سر گراں ہوا
مستلزم سپاس ہے شکوہ نصیب کا
نہ کہہ کہ گل نہیں ہوتا ہے خار سے پیدا
تیرے در سے میں اٹھا لیکن نہ میرا دل اٹھا
ابر سیہ اٹھا ہے بڑی زور شور کا
روئیں کیا ہم کہ نہیں یار پہ قابو اپنا
مورد صور کا جبکہ ہیولی ٹہر گیا
دشمن سے ربط ودست کا تغیر ہو گیا
ہم ترے در پہ رہے تو وہ کیا رہنا
مخالف جام مے ہجراں میں ہے طبع مشوش کا
کیونکر کہوں رحم انکو کسی پر نہیں آتا
انداز مناہی دل لگی کا
سو قدم پر سے ہوا بسمل برا ہو تیر کا
گہر کر کے خاک رہ کے برابر اگر ہوا
بر سر لطف آج چشم دلربا تھی میں نہ تھا
پھول ہیں گل سناہی جو آنا بسنت کا
ہے جنوں میں ضعف ایسا ابتو دامن گیر پا
اٹھا پردہ نہ میرے آگے اس کی روی روشن کا
آگیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا
ردیف البا
ردیف باے فارسی
کچھ غم نہیں ہے صاف مجھے گر دیا جواب
کہنے کا نہ مانئے برا آپ
سوئے ہیں آکے باغ میں کیوں اپنی گھر سے آپ
ہے شب وصل نہ ہو کاش سحر آج کی رات
ردیف تاے فوقانیہ
مریض غم کو عیادت ہے ناگوار بہت
بہا ہے بسکہ شب انتظار کی صورت
تھے آسمان پہ میری چرہائی تمام رات
ہم نے سو سو طرح بنائی بات
ہے شب غم کی بڑی خوف وخطر کی صورت
ردیف تاے ہندی
صبح شب وصال میں آواز پاکی چوٹ
ردیف ثاے مثلثہ
جاں فشانی کا وہاں حساب عبث
جب کہو کیوں ہو خفا کیا باعث
جھپکا نہیں ہی دیدہ شب زندار آج
ردیف جیم تازی
جب حلق سے گلاب نہ اترے تو کیا علاج
کرو دن پہ دن کو زیر زمیں وقت شام کوچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے حطی
پوچھوں جو پاؤں قرب مسیحا کس طرح
ردیف خاے معجمہ
رشک سے لاغر نہ کیوں ہو جاؤں میں مو کی طرح
آنکھ میں ڈوری عجب ہیں یار سرخ
قتل پر غیر کی باندھو نہ کمر میرے بعد
کوئی یوں عشق میں رسوا نہ ہوا میرے بعد
صیاد کو ہوا ہے مرا نالہ یہاں پسند
ردیف دال ہندی
دل ہو تو کیجے آہ کی تاثیر پر گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
جب لکھا ہم نے خط اشکوں سے ہوا تر کاغذ
دوست نے سونپ دیا ہے اسے اپنا تعویذ
اسیری میں بوقت نزع آکر
ردیف راے مہملہ
ملجائیں ادحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
قیس دیوانہ بنا عاشق لیلا ہوکر
نہیں حساب میں نسرین ونسترن کی بہار
چڑھائی ایسی ہی کس نامراد کی گھر پر
پیش جاے تانہ میری خوں کا دعوی یار پر
سنبھال واعظ زبان اپنے خدا سے ڈر اک ذرا حیا کر
جس طرح تیغ کہ کی معرکہ میں جاں جھک کر
ردیف رائے ہندی
اغیار کے لئے ہے مرا یار سے بگاڑ
گہر ہے مجھ سوختہ جان کا کرہ نار کے پاس
ردیف زاے معجمہ
ردیف سین مہملہ
ہو کیوں نہ الگ سبحہ وزنار کی آواز
ردیف صاد مہملہ
یہی ہے گر مری بخت سیاہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
ہے آینہ خالی میں تراذوق فزا رقص
ردیف ضاد معجمہ
یہاں نہ بالش کی تمنا ہے نہ بستر سے غرض
ردیف طاے مہملہ
غیر نے پڑھ کے کیوں سنایا خط
کرتا ہوں خون سے دامن قاتل کی احتیاط
ردیف ظاے معجمہ
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
گالیاں دینے میں نہیں زنہار لحاظ
ردیف عین مہملہ
ہے سخت قضیہ دل ترا بیمار وقت نزع
پتھر کا بت ہے وہ نہیں جس کے جگر میں داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
کھینچو تو ہے یہ ڈر کہ کہیں کھنچ نہ جائے زلف
کہاں سے لاے گا آہ شرارہ بار چراغ
مٹی نہ وصل میں بھی کلفت زماں فراق
ردیف قاف
ردیف کاف تازی
ہے کبود اسکی طیلساں کا رنگ
ہم نشیں صورت ارایش عالم کبتک
سینے میں میرے تم کو عبث ہے گمان دل
ردیف لام
بانگپن سمجھے ہیں قابو میں نہ آنا شب وصل
جبر سے میں نےکیا ہے ان کو مہمان آج کل
کی ہے آراستہ انجم نے فلک پر محفل
ردیف میم
پیری میں بھی بے ولولہ شوق نہیں ہم
کیا فائدہ ناحق ستم اتنا نہ کرو تم
کلام سخت کہہ کہہ کر وہ کیا ہم پر برستے ہیں
ان دنوں اک شمع رو کے گھر کی ہوں تعمیر میں
کم ہے علی کی مدح میں ہم جو غلو کریں
فسانہ ستم ہجر ہے سوال نہیں
وہ جب ایسے اپنا پروا کریں
لیکے اپنی زلف کو وہ پیارے پیارے ہاتھ میں
خبر آئی تھی کہ وہ مست شراب آتے ہیں
اپنا اپنا رنگ دکھلاتے ہیں جانے چوڑیاں
وہی گل ہے گلستاں میں وہی ہے شمع محفل میں
کہاں ہے تو کہاں ہے اورمیں ہوں
یہ قیامت ہے کہ نیمار کو مشکل سمجھیں
رونے کی یہ شدت ہے کہ کھبرا گئیں آنکھیں
دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر ٹپکیں
سرہاے خونچکاں ہیں پڑے کوے یار میں
بھید کی معلوم کرنے کے لئے غمخوار ہیں
کم نجانو لٹوں کو کیسو میں
سفینے عرض ناپیں عمق کو ہم قطع کرتے ہیں
خوش ہوں کیا اک جھاڑ روشن بن کے بزم طور میں
جی چھوڑ دیں گے دونو چل تو سہی چمن میں
جس میں نہ لخت دل ہو وہ دامان ہی نہیں
قیامت ہے رہا وہ شوخ ومساغدوبرسوں
مردہ زندوں کو تری آن سے ہم دیکھتے ہیں
ردیف واو
پھر نہ کہئے گا سنا کر مجھ کو
عبث آئینے میں امد شد دم دیکھتے ہیں
ہم نہیں چاہتے کہ دولت ہو
کہتے ہو جائیں گے پھر کیوں نہیں جاتے جاؤ
کم سمجھتے نہیں ہم خلد سے میخانے کو
کہاں کئے ہیں مشک دل وجگر دیکھو
تم اپنے حسن کو کیا اے نکارسمجھے ہو
بعد مدت مجھ سے کہتے ہو کہ کیا بیمار ہو
یہ دماغ اسکو کہاں ہے کہ سنوارے گیسو
چاہتا ہے دیکھنا گر صورت تسلیم کو
تکلف کیا ہے گر صورت میں مہرومہ سے بہتر ہو
اور کیا نالہ وفریاد سے حاصل مجھ کو
ہے اک لگا و نکہت زلف دوتا کے ساتھ
ردیف ہائے ہوز
مثل پے لپٹے ہوئے ہے رگ جاں تیر کے ساتھ
میں یہ نہیں کہتا کہ نہیں اسمیں اثر کچھ
نہیں غم جانکا شور اسکے در پر جو مچایا ہے
ردیف یاے تحتانی
انداز نرالا ہے ادا اور ہی کچھ ہے
لیکے دل زلف دوتا لوٹ کئے
سحر پہلی جو بو زلف دوتا کے
پھر بڑے زور سے ہیں جھوم کے بادل آئے
اگر یہ انجم وافلاک سب بدل جاتے
ربع مسکوں میں ہے آباد زمیں تھوڑی سی
عاجز وہ نہ کیوں آے بھلا بے دہنے سے
ہے پس ازنوروز فصل جانقر ابرسانکے
ہے دلاویز وفرح بخش ہوا ساون کے
وفا کی ہم نے اور تم نے جفا کی
ان کو گھر کا پتا دیا میں نے
صند سے وہ بزم مے میں نہیں دیتی جا مجھے
دیتا میں سر جھکا جو وہ تلوار کھینچتے
کبھی تو سوچیے دل میں ذرا خدا کے لئے
کیوں اس دہن سے بوے کا مجھ کو سوال ہے
دشمن کا بیان دوست بھلا کیا مرے آگے
نہیں کچھ وجہ رنجش کے اگر ہو بھی تو بیجا ہے
تھی غرض بسکہ ہمیں آپکی گھر آنے سے
کیوں نہ ہوں شرمندہ میں غمخوار سے
رونے سے ہاتھ اے دل دانا اٹھایئے
ہم کو ہوس جلوہ گہ طور نہیں ہے
کس مہروش کا آج اسے انتظار ہے
پھر جائیں کر اس سے ہم تو کیا ہے
خستہ پیکاں غم ہر اک جوان وپیر ہے
کیوں پوچھوں دیر کیوں تجھے اے نامہ بر ہوئے
کہتے ہیں تجھے لوگ کہ تو سرور داں ہے
یہ تو مانا کہ قیامت ہوگی
کہہ رہے ہیں مرے غمخوار خدا خیر کرے
اگر فقیر کی حاجت روا نہیں کرتے
کہا میں نے کہ بیدل ہوں کہا یہ قول باطل ہے
سمجھتے لوگ ہیں کہنے سے بیقرار کسے
دیکے دل مل کئے دلبر کی طبیعت مجھ سے
کب میں نے کسی بات کی تکرار نکالی
ہم کو بے چینی میں بھی آرام ہے
ان بتوں کو تو پری چہرہ بنایا تو نے
بناے عمر سے اٹھتا غبار دیکھ چکے
یوں تو چھیڑ انکو ہر کسی سے ہے
اک جہاں کشتہ انداز خود آرائی ہے
گزریگی شغل حیلہ ترا شیمیں شب مجھے
شب کو مہ دو ہفتہ کی تنویر دیکھ لی
ہے اندھیری اور آدھی رات ہے
اے بے سبب کشندۂ خلق آفریں تجھے
کھینچو نہ دل سے تیر کو اس پیچ وتاب سے
بے بادہ ہم سے کب وہ بت عشوہ کر کھلے
پھبتے کہو نہ تم رگ ابر بہار کے
جبکہ جاناں سے محبت ہے مجھے
نہ تم سے توقع یوں عدو کے دم میں آنے کی
آگے ہے کا سا طور ہے کیا ابکے بار بھی
ہم انکے نظر میں سمانے لگے
شاکر ہوں کیوں نہ ہم روش روزگار کے
ستم کرو ہم پہ بے تحاشا لحاظ کس کا ہے خوف کیا ہے
اس سے کیا بحث کہ ہوگی شب فرقت کیسے
خون تن عاشق بیدل میں کہاں رہتا ہے
دل میں ناوک ترا ترا زو ہے
کچھ اپنے جان وتن کی نہیں ہے خبر مجھے
اس توقع پہ کہ دیکھوں کبھی آتے جاتے
گر چارہ مرے زخم جگر کا نہیں کرتے
کیوں کہوں اس سے کہ تو میرا گریباں چھوڑ دے
قاتل آیا نہیں کہتے ہیں کہ آرام میں ہے
تجھے کیوں کہوں زندگانی کسیکے
دھمکائیں اسے کیا کہ ترے در سے اٹھیں گے
گلا کیونکر نہ کاٹیں جن کو ذوق جانستانی ہے
قبا کیا چست تن پر سرو کی ہے سبز مخمل کے
جفا ادھر سے اگر بیشمار باقی ہے
سراسر حال دہاں کب معرض اظہار میں آئے
ایسی اے مہر کف پا ترے نورانی ہے
اک پری رو کا طلبگار اک پری رخسار ہے
رنگ فق منہ خشک گویا عشق کا ازار ہے
قاضی کے منہ پہ مارے ہے بوتل شراب کی
ٹھنڈی ہے برق شوخ جمالوں کے سامنے
ہر انجمن میں شان اسے خود نما کی ہے
آئے پسند انکو جو رنگت بسنت کے
قسمت نے پھر بہار دکھائے بسنت کے
گھر کی دیوار ہے اشکوں سے نہیں بیٹھ گئے
اک زمیں بار محبت سے نہیں بیٹھ گئے
کہتے اگر کہ طرز ستم ناپسند ہے
کیوں غم تپ غم میں دغا کا ڈر نہ ہو تدبیر سے
یہاں صبح وشام دھیان مرا نامہ بر میں ہے
ردیف دال مہملہ
مخمسات
سہرا
در منقبت حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ
تسلیم ہے حسین علیہ السلام کو
سلام
اسے سلام کہ دریا پہ تشتہ کام رہے
مجرا ہے اسے جس کے ثنا خواں ہیں ہزاروں
جب وقت سلام آنکھ مری اشک فشاں ہو
ہاں مجرئے امام سپہراستانکو دیکھ
خستہ خنجر ستم کو سلام
حضرت شبیر کو پہنچی سلام
درود اس شاہ عالی آستاں پر
یوں تو ہو جاتا ہے ہر اک عیش وعشرت کا شریک
مجرا اسے جو خستہ دل وسوختہ جاں ہے
اس پر سلام قبلہ ہے جو نو امام کا
مجرئے سنتی ہیں کل صبح وہ ساماں ہوگا
سلام اس شاہ دیں کو جس نے بڑھ کر اہل عالم سے
منہ سے گر وصت رخ شاہ نکل جاے ابھی
کل روپ اور دیکھیے کا کائنات کا
کسی نے سجدے سے پوچھا تھا امتحاں کے لئے
مجرئے وقت سفر شہ نے کہا صغرا سے
اس شاہ کے سلام کا مجھ کو خیال ہے
جب شاہ کو ہلال نے جھک کر کیا سلام
سلام اس خستہ پر تھا جس کا تن زخموں سے صد پارہ
میرا سلام پہنچے مہر سپہر دین کو
بندگی
ترکیب بند
بند دوم
بند سوم
بند چہارم
بند پنجم
بند ششم
بند ہفتم
رباعیات
مثنوی
واسوخت
واسوخت دوم
واسوخت سوم
واسوخت چہارم
قصیدہ در منقبت
قطعہ تاریخہا
واسوخت پنجم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔