سرورق
تقریظ ازقلم معجز رقم رئیس العلماء حضرت مولانا محمد صبغۃ اللہ
باب السلام
پیام سلام
سلام شوق
سلام نیاز
سلام مقبول
سلام مہجور
یہ ادنیٰ ہے وصف کمال محمد
آئے نسیم کوئے محمد ﷺ
عدم سے لائے ہے ہستی میں آرزو رسول
محشر میں محمد کا عنوان نرالا ہے
میرا دل اور مری جان مدینے والے
قبلۂ و کعبۂ ایمان رسول عربی
ادا کی لے رہی ہے عرش کی پہلو نشیں ہو کر
شوق دیدار میں اب جی پہ مرے آن نبی
سراجاً منیرا نگار مدینہ
ماہ درخشاں نیر اعظم ﷺ
کیا پوچھتے ہو گرمیٔ بازار مصطفیٰ
مناقب حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ
کعبۂ دل قبلۂ جاں طاق اروئے علی
روح روان مصطفوی جان اولیا
سرتاج پیراں قطب جہانی
پھر دل میں مرے آئے یاد شہ جیلانی
مدح حضرت غوث الاعظم محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی
مدح حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ
بیدم ہی نہیں ایجان تنہا ترا سودائی
خواجہ تری خاک آستانہ
پیمانہ یہ دے بھر کر پیمانہ معین الدین
میں آپ کا دیوانہ ہوں محبوب الٰہی
مدح حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ
بہار باغ جنت ہے بہار روضۂ صابر
مدح حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری
دلبر خواجہ فریدا لدین گنج شکری
حقیقت میں ہو سجدہ حبہ سائے کا بہانہ ہو
مدح حضرت مخدوم شیخ احمد عبد الحق رودولوی صاحب
چادر شریف
غریب پرور وبندہ نواز کی چادر
اے مرے دریا دل ساقی میر میخانہ عبدالحق
خدا پو کشور دیں خسرو ملک خدادانی
مدح حضرت سیدنا امیرابوالعلا احراری اکبرآبادی
چادر شریف
مدح حضرت طاب اللہ ثراہ ونور اللہ ضریحہ
حضرت وارث چراغ خاندان پنجتن
بلائے جاں ہے حسن روئے وارث
ہے آئینہ پنجتن شان وارث
مرے دل کا دل جان کی جان وارث
ابن حسین وآل نبی وارث علی
مہمان ہے خدا کا ہر میہمان وارث
فدا ہے جان تو دل مبتلائے وارث ہے
قدسیوں میں ہے شمار خادمان وارثی
تری سرکار ہے عالی مرے وارث مرے والی
فضل خدا کا نام ہے فیضان اولیا
دل اڑائے لیے جاتی ہے ہوا دیوے کی
تمہید تمنا ہے نہ عنوان تمنا
ترے جلووں کی نیرنگی سے دل ہے منتشراپنا
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
مرے ہوتے ہوئے کوئی شریک امتحاں کیوں ہو
مرے درد نہاں کا حال محتاج بیاں کیوں ہو
یہ نہیں معلوم کوئی زینت آغوش ہے
کاش مری جبین شوق سجدوں سے سر فراز ہو
میں اور حسن یار کا جلوا لیے ہوئے
کاش سمجھے مرا سوز غم پنہاں کوئی
میری تربت پہ ہے انگشت بدنداں کوئی
ہتھیلی پر لیے سر عشق کے دربار میں آیا
قسمت کھلی ہے آج ہمارے مزار کی
چومی رکاب اٹھ کے کسی شہسوار کی
دل وحشی مرا شیدائے زلف عنبریں ہو کر
دل کو میرے جلوہ گاہ روئے روشن کر دیا
طور والے تری تنویر لئے بیٹھے ہیں
بھر دیا دامن مراد رخ سے نقاب اٹھا دیا
محمل کے قریں رہ کر مجنوں تو رہے محروم
پہلو میں دل ہے دل میں تمنائے یار ہے
گھونگھٹ اس رخ سے گر جدا ہو جائے
اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہیئے
بیگانگئی دل کے افسانے کو کیا کہئے
ساتھ دے کون ترے عشق میں وحشت کے سوا
سورج کی کرن یا کاہکشاں یا عقد ثریا سہرا ہے
انکے ناوک آکے سینے میں مرے کیا دیکھتے
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
غمزہ پیکاں ہو ا جاتا ہے
ذرے ذرے سے ترا حسن نمایاں ہو جائے
جناب وارث آل عبا کی چادر ہے
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
تیغ کھینچ اس نے اور تیور بدل کر رہ گیا
قلت مضطر سے سنی جب داستان آرزو
کہہ رہا ہے ضعف اپنے نالۂ شبگیر کا
خیال میں بھی وہ گل ہم سے ہمکنار نہیں
جس جگہ دل ہے وہیں یار کا پیکاں بھی ہے
کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے
جب خیال یار کا مسکن مرا سینہ ہوا
سنانے کو ہیں مبتلائے محبت
صبر آئے کس طرح تیرے قول وقرار پر
تجھ سے پاتے نہیں اے دوست یہ منزل خالی
دل تاک رہی ہے تری دزدیدہ نظر آج
گلزار محبت کی فضا میرے لیے ہے
ہم بھی ہیں یار بھی ہو لطف ملاقات ہے
وہ کیا نہیں کرتے ہیں وہ کیا کر نہیں سکتے
کاش مجھ پر ہی مجھے یار کا دھوکا ہو جائے
دل میں جوترے تیر نظر آئے ہوئے ہیں
شمع حرم جاں ہے یا مشعل بت خانہ
اک ذرا سی بات کا افسانہ گھر گھر ہو گیا
دل کی دنیا کا ہر اک گوشہ منور ہو گیا
تجلی رخ روشن کا کیا ٹھکانا تھا
کچھ گلا ان سے کچھ شکوہ ہے چرخ پیر کا
وہ جام کیوں مجھے پیر مغاں نہیں ملتا
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
تم ملو میری قسمت رسا ہو
کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی
شادیٔ والم سب سے حاصل ہے سبکدوشی
ہے رخ کا پہلو نشیں سہرا
میکشو مشرب رندانہ مبارک باشد
بت خانے میں کعبے کی تنویر نظر آئی
غش ہوئے جاتے ہو کیوں طور موسیٰ دیکھو
دشمن کی دعا جا کے پھرے باب اثر سے
ہے کوچۂ الفت میں وحشت کی فراوانی
میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
یہ بت جو کعبۂ دل کو کسی کے ڈادینگے
تیری چشم مست کا ساقی اثر آنکھوں میں ہے
ہم داد وفا لیں گے وہ داد وفا دیں گے
کتنا سکون خاص تھا دست حسین ساز میں
نہ نکلے ہیں نہ یوں نکلیں تمہارے تیر کے ٹکڑے
میں کیا کہوں کہ کیا نگہ فتنہ گر میں ہے
اب آدمی کچھ اور ہماری نظر میں ہے
اسیری میں اٹھائے لطف باغ آشنائی کے
سنبھل سنبھل کے وہ کرتے ہیں دار چتوں کے
ہم اپنے طالع خفتہ کو جب بیدار دیکھیں گے
داروئے درد نہاں راحت جانی صنما
دنیا کی کچھ خبر تھی نہ عقبیٰ کا ہوش تھا
زخم جگر بھی کہنے لگا داستان شوق
یہاں تو چھپنے والوں کو ہمیں دو چار دیکھیں گے
رخ نوشاہ قرآں ہے تو بسم اللہ کا سہرا
دشمن کے پر کترتا ہے میرا بیان شوق
ادا پر تری دل ہے آنے کے قابل
مبارک ساقیٔ مستاں مبارک
کہیں محشر میں بھی وہ مائل پروانہ ہو جائے
اگر کعبہ کا رخ بھی جانب میخانہ ہو جائے
وہ پردے سے نہیں نکلے تو کیا جان حزیں نکلی
فرقت میں زندگی مجھے اپنی اکھڑ گئی
آنکھوں کی راہ سے مرے دل میں اتر گئی
جب سے دل کشمکش گیسوؤ رخسار میں ہے
نکلے ہیں سج کے جملہ نشینان اضطراب
لا نہیں سکتا انہیں شور قیامت ہوش میں
کہنے والے اپنی اپنی کہ گئے
یوں ہر اک جلوہ میں ہے جلوہ نما کی صورت
ہے دل محزوں مکان درد دل
قیس کوئے لیلی میں جب پئے نماز آیا
ہلاک تیغ جفا یا شہید ناز کرے
حال ابتر ہے ہجر میں دل کا
ہوا ختم ہستی کا میری فسانہ
سہارا موجو نکالے لیکے بڑھ رہا ہوں میں
نور نظر احمد مختار کی چادر
بحال خستہ وگم کردہ را ہے
سینہ میں دل ہے دل میں داغ داغ میں سوز وساز عشق
جو دنیا ہے تو ایسا جام دے پیر مغاں مجھ کو
وہ گھبرائے کچھ ایسے آج میرے شورو شیون سے
لڑکھڑاتا کیوں ہے آخر بزم میں پیمانہ آج
ہے لیلیٰ زیب محمل اور یاد قیس ہے دل میں
کام میرا کسی تدبیر سے آساں نہ ہوا
ہم میکدے سے مرکے بھی باہر نہ جائیں گے
حضور وارث عالی مقام کی چادر
یہ خسروی وشوکت شاہانہ مبارک
اس طرف بھی کرم اے رشک مسیحا کرنا
کیا سنائے مبتلائے درد دل
یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض ہے پرستی ہے
کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ کانہ ترا
تیرے خیال میں دل دنیا کو دیکھتا ہے
حشر بھی یونہی جائیگا اے دل بیقرار کیا
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
محشر کو پائمال کرے یا بپا کرے
پڑا ہے نوشہ کے رخ پر نقاب سہرے کا
تیرے کمال ستم کی یہ یاد گار رہے
مہماں ہے خیال رخ جانانہ کسی کا
وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے
خیال ہے کہ انہیں بے نقاب دیکھیں گے
اس سنگ آستاں پہ جبیں نیاز ہے
جس طرف دیکھتا ہوں جلوۂ جانانہ ہے
موت کی ہچکی کے آتے ہی رشتہ ٹوٹ گیا
دشمنوں کے کہنے سننے میں وہ یار آہی گیا
ساقی نے جسے چاہا مستانہ بنا ڈالا
بہار جن کےلئے ہے انہیں بہار بسنت
جام غیروں ہی کو ہر بار عطا ہوتا ہے
گلی کو ہم تری دار الاماں سمجھتے ہیں
ہاں یاد ہے وہ موسم دیونہ گر مجھے
اٹھتا ہوا ہستی کا پردا نظر آتا ہے
مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
بہار آتے ہی لائیں رنگ ٹھنڈی گرمیاں میری
مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش وحواس بجا ہی نہیں
نہ کنشت وکلیسا سے کام ہمیں در دیر ہ بیت حرم سے غرض
چھیڑا پہلے پہل جب ساز ہستی
درد دل اٹھا ہے محفل میں بٹھانے کیلئے
جب نیاز عشق تھا اب ناز ہے
مرا وقار یہ وقت وداع جاں ہوتا
ناز والے اب تجھے کیوں ناز ہے
یاد ایا ہے کہ جب تو زینت آغوش تھا
ہر طرف ساغر بکف ہیں میگسا ران بہار
برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا
سرکار پہ ہونیکو ہیں قربان ہزاروں
یاد نے تیری کیا مجھ سے فراموش مجھے
بتا ہی دیں تجھے زاہد کہاں سے آتے ہیں
اللہ اللہ عروج حسن مجاز
نہ جانے میری لحد پر کہاں سے آتے ہیں
نہ سنو میرے نالے ہیں درد بھرے دارو اثرے آہ سحرے
تصور میں کسی کا زینت آغوش ہو جانا
چمن میں ذکر گل سن کر سراپا گوش ہو جانا
تمہارے ہی ہونے سے آباد ہے دل تمہیں جب نہ ہوگے تو ویران ہوگا
جانب میکدہ آنکلے ہیں مستانے چند
میری نظروں میں کوئی مست خرام ناز تھا
وہ بھی اس غارتگر جاں کا شریک راز تھا
کئے جا شکر قسمت کا گلا کیا
رنگ تاثیر محبت یوں دکھانا چاہیئے
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
آتا شب وعدہ وہ ستم کیش ادھر کاش
اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سرا پا دل کردے
سر مقتل سنا ہے بہر قتل عام آتا ہے
کبھی یہاں لئے ہوئے کبھی وہاں لئے ہوئے
میں یار کا جلوا ہوں
پیری میں ہے جذبات محبت کا مزا خاص
مکیں دل نہ سمجھے پردہ دارلامکاں سمجھے
مر کے بھی دل نے اک قیامت کی
نہ گل کا راز جانے تو نہ بلبل کی زباں سمجھے
جہاں پر ختم ہوتی ہیں حدیں دنیائے امکاں کی
رہیں گی بعد میرے بھی یونہی رسوائیاں میری
منکشف تجھ پہ اگر اپنی حقیقت ہو جائے
سجدہ اسی کا سجدہ ہو سرو ہی سر فراز ہو
زہے نصیب تری خاک آستاں ہوں میں
قفس کی تیلیوں سے لیکے شاخ آشیاں تک ہے
بے پردہ زلف بدوش کوئی جب عرصۂ حشر میں آئے گا
کلام پوربی بھاشا برہا بروگ
ہولی
شجرۂ وارثیہ نسب نامۂ عالیہ
شجرۂ عالیہ قادریہ رزاقیہ وارثیہ
شجرۂ طیبہ چشتیہ نظامیہ وارثیہ
قطعات تاریخ
سرورق
تقریظ ازقلم معجز رقم رئیس العلماء حضرت مولانا محمد صبغۃ اللہ
باب السلام
پیام سلام
سلام شوق
سلام نیاز
سلام مقبول
سلام مہجور
یہ ادنیٰ ہے وصف کمال محمد
آئے نسیم کوئے محمد ﷺ
عدم سے لائے ہے ہستی میں آرزو رسول
محشر میں محمد کا عنوان نرالا ہے
میرا دل اور مری جان مدینے والے
قبلۂ و کعبۂ ایمان رسول عربی
ادا کی لے رہی ہے عرش کی پہلو نشیں ہو کر
شوق دیدار میں اب جی پہ مرے آن نبی
سراجاً منیرا نگار مدینہ
ماہ درخشاں نیر اعظم ﷺ
کیا پوچھتے ہو گرمیٔ بازار مصطفیٰ
مناقب حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ
کعبۂ دل قبلۂ جاں طاق اروئے علی
روح روان مصطفوی جان اولیا
سرتاج پیراں قطب جہانی
پھر دل میں مرے آئے یاد شہ جیلانی
مدح حضرت غوث الاعظم محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی
مدح حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ
بیدم ہی نہیں ایجان تنہا ترا سودائی
خواجہ تری خاک آستانہ
پیمانہ یہ دے بھر کر پیمانہ معین الدین
میں آپ کا دیوانہ ہوں محبوب الٰہی
مدح حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ
بہار باغ جنت ہے بہار روضۂ صابر
مدح حضرت خواجہ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری
دلبر خواجہ فریدا لدین گنج شکری
حقیقت میں ہو سجدہ حبہ سائے کا بہانہ ہو
مدح حضرت مخدوم شیخ احمد عبد الحق رودولوی صاحب
چادر شریف
غریب پرور وبندہ نواز کی چادر
اے مرے دریا دل ساقی میر میخانہ عبدالحق
خدا پو کشور دیں خسرو ملک خدادانی
مدح حضرت سیدنا امیرابوالعلا احراری اکبرآبادی
چادر شریف
مدح حضرت طاب اللہ ثراہ ونور اللہ ضریحہ
حضرت وارث چراغ خاندان پنجتن
بلائے جاں ہے حسن روئے وارث
ہے آئینہ پنجتن شان وارث
مرے دل کا دل جان کی جان وارث
ابن حسین وآل نبی وارث علی
مہمان ہے خدا کا ہر میہمان وارث
فدا ہے جان تو دل مبتلائے وارث ہے
قدسیوں میں ہے شمار خادمان وارثی
تری سرکار ہے عالی مرے وارث مرے والی
فضل خدا کا نام ہے فیضان اولیا
دل اڑائے لیے جاتی ہے ہوا دیوے کی
تمہید تمنا ہے نہ عنوان تمنا
ترے جلووں کی نیرنگی سے دل ہے منتشراپنا
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
مرے ہوتے ہوئے کوئی شریک امتحاں کیوں ہو
مرے درد نہاں کا حال محتاج بیاں کیوں ہو
یہ نہیں معلوم کوئی زینت آغوش ہے
کاش مری جبین شوق سجدوں سے سر فراز ہو
میں اور حسن یار کا جلوا لیے ہوئے
کاش سمجھے مرا سوز غم پنہاں کوئی
میری تربت پہ ہے انگشت بدنداں کوئی
ہتھیلی پر لیے سر عشق کے دربار میں آیا
قسمت کھلی ہے آج ہمارے مزار کی
چومی رکاب اٹھ کے کسی شہسوار کی
دل وحشی مرا شیدائے زلف عنبریں ہو کر
دل کو میرے جلوہ گاہ روئے روشن کر دیا
طور والے تری تنویر لئے بیٹھے ہیں
بھر دیا دامن مراد رخ سے نقاب اٹھا دیا
محمل کے قریں رہ کر مجنوں تو رہے محروم
پہلو میں دل ہے دل میں تمنائے یار ہے
گھونگھٹ اس رخ سے گر جدا ہو جائے
اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہیئے
بیگانگئی دل کے افسانے کو کیا کہئے
ساتھ دے کون ترے عشق میں وحشت کے سوا
سورج کی کرن یا کاہکشاں یا عقد ثریا سہرا ہے
انکے ناوک آکے سینے میں مرے کیا دیکھتے
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
غمزہ پیکاں ہو ا جاتا ہے
ذرے ذرے سے ترا حسن نمایاں ہو جائے
جناب وارث آل عبا کی چادر ہے
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
تیغ کھینچ اس نے اور تیور بدل کر رہ گیا
قلت مضطر سے سنی جب داستان آرزو
کہہ رہا ہے ضعف اپنے نالۂ شبگیر کا
خیال میں بھی وہ گل ہم سے ہمکنار نہیں
جس جگہ دل ہے وہیں یار کا پیکاں بھی ہے
کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہیے
جب خیال یار کا مسکن مرا سینہ ہوا
سنانے کو ہیں مبتلائے محبت
صبر آئے کس طرح تیرے قول وقرار پر
تجھ سے پاتے نہیں اے دوست یہ منزل خالی
دل تاک رہی ہے تری دزدیدہ نظر آج
گلزار محبت کی فضا میرے لیے ہے
ہم بھی ہیں یار بھی ہو لطف ملاقات ہے
وہ کیا نہیں کرتے ہیں وہ کیا کر نہیں سکتے
کاش مجھ پر ہی مجھے یار کا دھوکا ہو جائے
دل میں جوترے تیر نظر آئے ہوئے ہیں
شمع حرم جاں ہے یا مشعل بت خانہ
اک ذرا سی بات کا افسانہ گھر گھر ہو گیا
دل کی دنیا کا ہر اک گوشہ منور ہو گیا
تجلی رخ روشن کا کیا ٹھکانا تھا
کچھ گلا ان سے کچھ شکوہ ہے چرخ پیر کا
وہ جام کیوں مجھے پیر مغاں نہیں ملتا
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
تم ملو میری قسمت رسا ہو
کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی
شادیٔ والم سب سے حاصل ہے سبکدوشی
ہے رخ کا پہلو نشیں سہرا
میکشو مشرب رندانہ مبارک باشد
بت خانے میں کعبے کی تنویر نظر آئی
غش ہوئے جاتے ہو کیوں طور موسیٰ دیکھو
دشمن کی دعا جا کے پھرے باب اثر سے
ہے کوچۂ الفت میں وحشت کی فراوانی
میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
یہ بت جو کعبۂ دل کو کسی کے ڈادینگے
تیری چشم مست کا ساقی اثر آنکھوں میں ہے
ہم داد وفا لیں گے وہ داد وفا دیں گے
کتنا سکون خاص تھا دست حسین ساز میں
نہ نکلے ہیں نہ یوں نکلیں تمہارے تیر کے ٹکڑے
میں کیا کہوں کہ کیا نگہ فتنہ گر میں ہے
اب آدمی کچھ اور ہماری نظر میں ہے
اسیری میں اٹھائے لطف باغ آشنائی کے
سنبھل سنبھل کے وہ کرتے ہیں دار چتوں کے
ہم اپنے طالع خفتہ کو جب بیدار دیکھیں گے
داروئے درد نہاں راحت جانی صنما
دنیا کی کچھ خبر تھی نہ عقبیٰ کا ہوش تھا
زخم جگر بھی کہنے لگا داستان شوق
یہاں تو چھپنے والوں کو ہمیں دو چار دیکھیں گے
رخ نوشاہ قرآں ہے تو بسم اللہ کا سہرا
دشمن کے پر کترتا ہے میرا بیان شوق
ادا پر تری دل ہے آنے کے قابل
مبارک ساقیٔ مستاں مبارک
کہیں محشر میں بھی وہ مائل پروانہ ہو جائے
اگر کعبہ کا رخ بھی جانب میخانہ ہو جائے
وہ پردے سے نہیں نکلے تو کیا جان حزیں نکلی
فرقت میں زندگی مجھے اپنی اکھڑ گئی
آنکھوں کی راہ سے مرے دل میں اتر گئی
جب سے دل کشمکش گیسوؤ رخسار میں ہے
نکلے ہیں سج کے جملہ نشینان اضطراب
لا نہیں سکتا انہیں شور قیامت ہوش میں
کہنے والے اپنی اپنی کہ گئے
یوں ہر اک جلوہ میں ہے جلوہ نما کی صورت
ہے دل محزوں مکان درد دل
قیس کوئے لیلی میں جب پئے نماز آیا
ہلاک تیغ جفا یا شہید ناز کرے
حال ابتر ہے ہجر میں دل کا
ہوا ختم ہستی کا میری فسانہ
سہارا موجو نکالے لیکے بڑھ رہا ہوں میں
نور نظر احمد مختار کی چادر
بحال خستہ وگم کردہ را ہے
سینہ میں دل ہے دل میں داغ داغ میں سوز وساز عشق
جو دنیا ہے تو ایسا جام دے پیر مغاں مجھ کو
وہ گھبرائے کچھ ایسے آج میرے شورو شیون سے
لڑکھڑاتا کیوں ہے آخر بزم میں پیمانہ آج
ہے لیلیٰ زیب محمل اور یاد قیس ہے دل میں
کام میرا کسی تدبیر سے آساں نہ ہوا
ہم میکدے سے مرکے بھی باہر نہ جائیں گے
حضور وارث عالی مقام کی چادر
یہ خسروی وشوکت شاہانہ مبارک
اس طرف بھی کرم اے رشک مسیحا کرنا
کیا سنائے مبتلائے درد دل
یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض ہے پرستی ہے
کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ کانہ ترا
تیرے خیال میں دل دنیا کو دیکھتا ہے
حشر بھی یونہی جائیگا اے دل بیقرار کیا
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
محشر کو پائمال کرے یا بپا کرے
پڑا ہے نوشہ کے رخ پر نقاب سہرے کا
تیرے کمال ستم کی یہ یاد گار رہے
مہماں ہے خیال رخ جانانہ کسی کا
وہ چلے جھٹک کے دامن مرے دست ناتواں سے
خیال ہے کہ انہیں بے نقاب دیکھیں گے
اس سنگ آستاں پہ جبیں نیاز ہے
جس طرف دیکھتا ہوں جلوۂ جانانہ ہے
موت کی ہچکی کے آتے ہی رشتہ ٹوٹ گیا
دشمنوں کے کہنے سننے میں وہ یار آہی گیا
ساقی نے جسے چاہا مستانہ بنا ڈالا
بہار جن کےلئے ہے انہیں بہار بسنت
جام غیروں ہی کو ہر بار عطا ہوتا ہے
گلی کو ہم تری دار الاماں سمجھتے ہیں
ہاں یاد ہے وہ موسم دیونہ گر مجھے
اٹھتا ہوا ہستی کا پردا نظر آتا ہے
مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
بہار آتے ہی لائیں رنگ ٹھنڈی گرمیاں میری
مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش وحواس بجا ہی نہیں
نہ کنشت وکلیسا سے کام ہمیں در دیر ہ بیت حرم سے غرض
چھیڑا پہلے پہل جب ساز ہستی
درد دل اٹھا ہے محفل میں بٹھانے کیلئے
جب نیاز عشق تھا اب ناز ہے
مرا وقار یہ وقت وداع جاں ہوتا
ناز والے اب تجھے کیوں ناز ہے
یاد ایا ہے کہ جب تو زینت آغوش تھا
ہر طرف ساغر بکف ہیں میگسا ران بہار
برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا
سرکار پہ ہونیکو ہیں قربان ہزاروں
یاد نے تیری کیا مجھ سے فراموش مجھے
بتا ہی دیں تجھے زاہد کہاں سے آتے ہیں
اللہ اللہ عروج حسن مجاز
نہ جانے میری لحد پر کہاں سے آتے ہیں
نہ سنو میرے نالے ہیں درد بھرے دارو اثرے آہ سحرے
تصور میں کسی کا زینت آغوش ہو جانا
چمن میں ذکر گل سن کر سراپا گوش ہو جانا
تمہارے ہی ہونے سے آباد ہے دل تمہیں جب نہ ہوگے تو ویران ہوگا
جانب میکدہ آنکلے ہیں مستانے چند
میری نظروں میں کوئی مست خرام ناز تھا
وہ بھی اس غارتگر جاں کا شریک راز تھا
کئے جا شکر قسمت کا گلا کیا
رنگ تاثیر محبت یوں دکھانا چاہیئے
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
آتا شب وعدہ وہ ستم کیش ادھر کاش
اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سرا پا دل کردے
سر مقتل سنا ہے بہر قتل عام آتا ہے
کبھی یہاں لئے ہوئے کبھی وہاں لئے ہوئے
میں یار کا جلوا ہوں
پیری میں ہے جذبات محبت کا مزا خاص
مکیں دل نہ سمجھے پردہ دارلامکاں سمجھے
مر کے بھی دل نے اک قیامت کی
نہ گل کا راز جانے تو نہ بلبل کی زباں سمجھے
جہاں پر ختم ہوتی ہیں حدیں دنیائے امکاں کی
رہیں گی بعد میرے بھی یونہی رسوائیاں میری
منکشف تجھ پہ اگر اپنی حقیقت ہو جائے
سجدہ اسی کا سجدہ ہو سرو ہی سر فراز ہو
زہے نصیب تری خاک آستاں ہوں میں
قفس کی تیلیوں سے لیکے شاخ آشیاں تک ہے
بے پردہ زلف بدوش کوئی جب عرصۂ حشر میں آئے گا
کلام پوربی بھاشا برہا بروگ
ہولی
شجرۂ وارثیہ نسب نامۂ عالیہ
شجرۂ عالیہ قادریہ رزاقیہ وارثیہ
شجرۂ طیبہ چشتیہ نظامیہ وارثیہ
قطعات تاریخ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.