سرورق
فہرست عنوانات دیوان بقا
مقدمہ
مخففات
غزلیات
وہ انگارا ہے پہلو میں دل بیتاب آتش کا
قضا نے حال کل جب صفحۂ تقدیر پر لکھا
خال لب آفت جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
کعبہ تو سنگ وخشت سے اے شیخ مل بنا
دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا
سیکھا جو قلم سے نے خالی کا بجانا
مت تنگ ہو کرے جو فلک تجھ کو تنگدست
غم میں اس زلف دوزخ کے ہم ہیہات
ہم کو جو کچھ مفید جہاں کا نہیں علاج
لاؤں جو شکوۂ شب ہجراں سخن کے بیچ
اے جنوں ! یمن قدم سے ترے اک آن کے بیچ
مے خون کی جا اپنی تو رگ رگ میں رہی رچ
کھب گئی چشم میں جب سے کمر یار کی طرح
دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نشد دو شد
نہ لے اس دل کو نظروں میں جھپٹ کر
رکھتا ہے یوں وہ زلف سیہ فام دوش پر
آوے جو ناز سے مرا وہ بت سیم بر بہ بر
قاتل جو ملے مجھ سے کفن نذر پکڑ کر
اب کیونکے رہوں شہر میں بے یار کہ وحشت
سب رنگ عاریت وہ سمجھتا ہے ننگ ناز
میںہو چکا ہوں یار نشان خدنگ ناز
مجھ کو نہ اب دل ہے نہ جاں ہے عزیز
جو چشم و دل سے چڑھا دوں نالے بہ آب اول دوم بہ آتش
یار سے ہم کو نہ آئی کبھی در پیش غرض
آویں سمن(کذا) میں جو وہ رخسار آتش رنگ و شمع
گل کو ہے بلبل سے مگر قصد جنگ
ساتھ غیروں کے جو دیکھا تجھ کو پیتے مل کے مل
گر ترے درپہ نہاں زیر زمیں کھویا دل
نرگس مست تری جائے جو تل برسر گل
نہ دبے لب کی جو تقریر تلے شیشۂ مل
اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم
کرکے باتاب نگہ یاں تن و آتش کو بہم
یار کے نقش آستاں ہیں ہم
کیونکر بھلا رواں نہ رہے میری جوے چشم
جب میرے دل جگر کی طلسمیں بنائیاں
یکساں لگیں ہیں ان کو تو دیر و حرم بہم
قابل شکوہ یہ اپنی ہی زباں ہے کہ نہیں
کیوں نہ مرغ چمن اس کا ہو نثار دامن
جو جہاں کے آئینہ ہیں دل انھوں کے سادہ ہیں
سیلاب سے آنکھوں کے رہتی ہے خرابے میں
ساقی کو دو نوید بہار آئی باغ میں
تجھ سیہ چشم سے امید وفا جو رکھیں
راستی پر ہم سے کس دن آئیاں
آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں
غیرت گل ہے تو اور چاک گریباں ہم ہیں
ہم سا کوئی میخوار گر اس بزم سے گم ہو
اس بزم پوچھے نہ کوئی مجھ سے کہ کیا ہوں
مجھ سے کب تک اس دل صد چاک کا پوند ہو
کس لیے اے شمع رو! پھر وہ ترا پروانہ ہو
نہ دے زخم دل نازک پہ حکم بخیہ مژگاں کو
جو گریۂ مدام کی آنکھوں کو خو نہ ہو
قتل عشاق کرو تم سے تو ہاں یہ بھی ہو
میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو
سرو کی لاف بلندی کس سند پر راست ہو
صاف جی کرکے ملا تجھ سے ہزار آئینہ
رشک گلشن ہے ترے عکس سے یار آئینہ
چشم مست اس کی سے ہے اب تو دو چار آئینہ
چھپ کے نظروں سے ان آنکھوں کی فراموش کی راہ
پیوند ہوا ایسا رخ سے خط جانا نہ
چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
جب سے خاتم ہے تری زیر نگیں آئینہ
یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے
مت چمن میں جا گلوں کے رخ سے رنگ اڑ جائیں گے
سیر میں تیری ہے بلبل بوستاں بے کار ہے
ہم ناتواں دبیں جو سرانگشت کے تلے
سپاہ عشرت پہ فوج غم نے جو مل کے مرکب بہم اٹھائے
مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے
اس چہرے کی جب طرح رقم ہاتھ سے رکھ دی
جلوہ ٹک باغ میں قمری! جو وہ شمشاد کرے
خواب میں جب نظر آیا رخ دلدار مجھے
انگشتری چشم ہے کس کام کے لئے
کل مے کدے کی جانب آہنگ محتسب ہے
مری چشم میں کیوں نہ خوناب اترے
عشق میں بے ہے کبریائی کی
ترے مریض محبت کی نبض چھوٹ گئی
جاؤں گا چمن میں دل نالاں کو بہم لے
مرا دل اب تو جوں شبنم بندھا ہے گل کے پلے سے
رنگ میں ہم مس سے بتر ہو چکے
ہاں میاں سچ ہے تمہاری تو بلا ہی جانے
دل سے وہ نگاہ پیر گزری
اب کہاں تاب جو نالے میں کروں شوروں سے
کہتا ہے دم بوسہ دور کہاں کا ہے
آکے ناصح جو مرا لبس دریدہ کاڑھے
تربت میں میری آہ سے یہ زلزے ہوئے
نہ گزرا تھا ہنوز اس کی دم شمشیر گردن سے
جدا کرنا ہو سر میرا جو ہر تقدیر گردن سے
جس کو کہتے ہیں یہ رہ رو جرس محمل ہے
جو تم اور صبح اور گلنار خنداں ہوکے مل بیٹھے
تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے
ترے جو خال سیہ لب پہ آشکارا ہے
رباعیات وقطعات
گو ہم پے دیں کفر تجیں بے کم و کاست
زاری کی نہ میری کچھ اسے شرم ہوئی
یا کاش کہیں لگیں ٹھکانے مرہم
درمذمت نفس
رباعی تجنیس
قصائد
جب مری چشم گئی نیند سے گل رات جھپک
دانت اس کے کوئی دیکھے جو دوسوے خرطوم
یوں چھپے اس سے تو جوں چاند کے حائل ہو چکور
مے معنی سے کر اب جام سخن کو سرشار
کل حضرت بقا سے کیا میں نے یہ سوال
آکر غضب میں تو کمر چرخ پر کبھی
ممدوح سن ذرا کہ کوئی دم کی فکر میں
ہجویات
مثنوی در ہجو میرؔ
ان آنکھوں کانت گر یہ دستور تھا
ہم نہ کہتے تھے تمہیں اے دوستاں
میرؔ نے تو ترا مضمون دو آبے کا لیا
ہجو مرزاؔ و میرؔ
ڈرتا ہوں کر گسوں کا نہ ہو میرؔ ناشتہ
مرزاؔ و میرؔ باہم دونوں تھے نیم ملا
میں پوچھا ایک دہقاں سے کہ بھائی
سرسرایاں چوں کنم سر ریختہ سر ریختہ
ہجو دہقاں
ایک ملکی نے کہا قاضی سے جب ہم نہ رہے
فارسی کلام
یار باجوروجفا بودہ سلامت باشد
ہر تیر غمزہ ات زدلم برنشان رسید
مرو درپی عیب جو یان خام
مثنوی
شبی با بقاؔ گفتم ای نامجوی
تنافر از جاہل
رباعی
تادیدہ بود زوست دیدن ندہم
AUTHORبقا اللہ بقاؔ
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
AUTHORبقا اللہ بقاؔ
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
سرورق
فہرست عنوانات دیوان بقا
مقدمہ
مخففات
غزلیات
وہ انگارا ہے پہلو میں دل بیتاب آتش کا
قضا نے حال کل جب صفحۂ تقدیر پر لکھا
خال لب آفت جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
کعبہ تو سنگ وخشت سے اے شیخ مل بنا
دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا
سیکھا جو قلم سے نے خالی کا بجانا
مت تنگ ہو کرے جو فلک تجھ کو تنگدست
غم میں اس زلف دوزخ کے ہم ہیہات
ہم کو جو کچھ مفید جہاں کا نہیں علاج
لاؤں جو شکوۂ شب ہجراں سخن کے بیچ
اے جنوں ! یمن قدم سے ترے اک آن کے بیچ
مے خون کی جا اپنی تو رگ رگ میں رہی رچ
کھب گئی چشم میں جب سے کمر یار کی طرح
دل خوں ہے غم سے اور جگر یک نشد دو شد
نہ لے اس دل کو نظروں میں جھپٹ کر
رکھتا ہے یوں وہ زلف سیہ فام دوش پر
آوے جو ناز سے مرا وہ بت سیم بر بہ بر
قاتل جو ملے مجھ سے کفن نذر پکڑ کر
اب کیونکے رہوں شہر میں بے یار کہ وحشت
سب رنگ عاریت وہ سمجھتا ہے ننگ ناز
میںہو چکا ہوں یار نشان خدنگ ناز
مجھ کو نہ اب دل ہے نہ جاں ہے عزیز
جو چشم و دل سے چڑھا دوں نالے بہ آب اول دوم بہ آتش
یار سے ہم کو نہ آئی کبھی در پیش غرض
آویں سمن(کذا) میں جو وہ رخسار آتش رنگ و شمع
گل کو ہے بلبل سے مگر قصد جنگ
ساتھ غیروں کے جو دیکھا تجھ کو پیتے مل کے مل
گر ترے درپہ نہاں زیر زمیں کھویا دل
نرگس مست تری جائے جو تل برسر گل
نہ دبے لب کی جو تقریر تلے شیشۂ مل
اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم
کرکے باتاب نگہ یاں تن و آتش کو بہم
یار کے نقش آستاں ہیں ہم
کیونکر بھلا رواں نہ رہے میری جوے چشم
جب میرے دل جگر کی طلسمیں بنائیاں
یکساں لگیں ہیں ان کو تو دیر و حرم بہم
قابل شکوہ یہ اپنی ہی زباں ہے کہ نہیں
کیوں نہ مرغ چمن اس کا ہو نثار دامن
جو جہاں کے آئینہ ہیں دل انھوں کے سادہ ہیں
سیلاب سے آنکھوں کے رہتی ہے خرابے میں
ساقی کو دو نوید بہار آئی باغ میں
تجھ سیہ چشم سے امید وفا جو رکھیں
راستی پر ہم سے کس دن آئیاں
آہیں افلاک میں مل جاتی ہیں
غیرت گل ہے تو اور چاک گریباں ہم ہیں
ہم سا کوئی میخوار گر اس بزم سے گم ہو
اس بزم پوچھے نہ کوئی مجھ سے کہ کیا ہوں
مجھ سے کب تک اس دل صد چاک کا پوند ہو
کس لیے اے شمع رو! پھر وہ ترا پروانہ ہو
نہ دے زخم دل نازک پہ حکم بخیہ مژگاں کو
جو گریۂ مدام کی آنکھوں کو خو نہ ہو
قتل عشاق کرو تم سے تو ہاں یہ بھی ہو
میری گو آہ سے جنگل نہ جلے خشک تو ہو
سرو کی لاف بلندی کس سند پر راست ہو
صاف جی کرکے ملا تجھ سے ہزار آئینہ
رشک گلشن ہے ترے عکس سے یار آئینہ
چشم مست اس کی سے ہے اب تو دو چار آئینہ
چھپ کے نظروں سے ان آنکھوں کی فراموش کی راہ
پیوند ہوا ایسا رخ سے خط جانا نہ
چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
جب سے خاتم ہے تری زیر نگیں آئینہ
یہ رخ یار نہیں زلف پریشاں کے تلے
مت چمن میں جا گلوں کے رخ سے رنگ اڑ جائیں گے
سیر میں تیری ہے بلبل بوستاں بے کار ہے
ہم ناتواں دبیں جو سرانگشت کے تلے
سپاہ عشرت پہ فوج غم نے جو مل کے مرکب بہم اٹھائے
مجھے تو عشق میں اب عیش و غم برابر ہے
اس چہرے کی جب طرح رقم ہاتھ سے رکھ دی
جلوہ ٹک باغ میں قمری! جو وہ شمشاد کرے
خواب میں جب نظر آیا رخ دلدار مجھے
انگشتری چشم ہے کس کام کے لئے
کل مے کدے کی جانب آہنگ محتسب ہے
مری چشم میں کیوں نہ خوناب اترے
عشق میں بے ہے کبریائی کی
ترے مریض محبت کی نبض چھوٹ گئی
جاؤں گا چمن میں دل نالاں کو بہم لے
مرا دل اب تو جوں شبنم بندھا ہے گل کے پلے سے
رنگ میں ہم مس سے بتر ہو چکے
ہاں میاں سچ ہے تمہاری تو بلا ہی جانے
دل سے وہ نگاہ پیر گزری
اب کہاں تاب جو نالے میں کروں شوروں سے
کہتا ہے دم بوسہ دور کہاں کا ہے
آکے ناصح جو مرا لبس دریدہ کاڑھے
تربت میں میری آہ سے یہ زلزے ہوئے
نہ گزرا تھا ہنوز اس کی دم شمشیر گردن سے
جدا کرنا ہو سر میرا جو ہر تقدیر گردن سے
جس کو کہتے ہیں یہ رہ رو جرس محمل ہے
جو تم اور صبح اور گلنار خنداں ہوکے مل بیٹھے
تھے ہم استادہ ترے در پہ ولے بیٹھ گئے
ترے جو خال سیہ لب پہ آشکارا ہے
رباعیات وقطعات
گو ہم پے دیں کفر تجیں بے کم و کاست
زاری کی نہ میری کچھ اسے شرم ہوئی
یا کاش کہیں لگیں ٹھکانے مرہم
درمذمت نفس
رباعی تجنیس
قصائد
جب مری چشم گئی نیند سے گل رات جھپک
دانت اس کے کوئی دیکھے جو دوسوے خرطوم
یوں چھپے اس سے تو جوں چاند کے حائل ہو چکور
مے معنی سے کر اب جام سخن کو سرشار
کل حضرت بقا سے کیا میں نے یہ سوال
آکر غضب میں تو کمر چرخ پر کبھی
ممدوح سن ذرا کہ کوئی دم کی فکر میں
ہجویات
مثنوی در ہجو میرؔ
ان آنکھوں کانت گر یہ دستور تھا
ہم نہ کہتے تھے تمہیں اے دوستاں
میرؔ نے تو ترا مضمون دو آبے کا لیا
ہجو مرزاؔ و میرؔ
ڈرتا ہوں کر گسوں کا نہ ہو میرؔ ناشتہ
مرزاؔ و میرؔ باہم دونوں تھے نیم ملا
میں پوچھا ایک دہقاں سے کہ بھائی
سرسرایاں چوں کنم سر ریختہ سر ریختہ
ہجو دہقاں
ایک ملکی نے کہا قاضی سے جب ہم نہ رہے
فارسی کلام
یار باجوروجفا بودہ سلامت باشد
ہر تیر غمزہ ات زدلم برنشان رسید
مرو درپی عیب جو یان خام
مثنوی
شبی با بقاؔ گفتم ای نامجوی
تنافر از جاہل
رباعی
تادیدہ بود زوست دیدن ندہم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔