یہ صحرا بس ابھی گل زار ہو جانے ہی والا ہے
یہ صحرا بس ابھی گل زار ہو جانے ہی والا ہے
کوئی طوفاں نہیں تو قافلہ آنے ہی والا ہے
ذرا ٹھہرو اسے آنے دو اس کی بات بھی سن لیں
ہمیں جو علم ہے گو دل کو دہلانے ہی والا ہے
سمندر میں جزیرے ہیں جزیروں پر ہے آبادی
ابھی اک شور بس کانوں سے ٹکرانے ہی والا ہے
ہوائے فصل گل میں شورش باد خزاں بھی ہے
کلی کھلتی ہے یعنی پھول مرجھانے ہی والا ہے
کہاں جاؤ گے کس خاک تمنا کی ہوس میں ہو
تمہاری راہ کا ہر موڑ ویرانے ہی والا ہے
وہی غرقاب ہوں گے ہم وہی کشتی نہ ڈوبے گی
اگرچہ ناخدا اس سچ کو جھٹلانے ہی والا ہے
- کتاب : khush ahjaar (Pg. 20)
- Author : khalid ebadi
- مطبع : educational publishing house (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.