در پردہ ستم ہم پہ وہ کر جاتے ہیں کیسے
در پردہ ستم ہم پہ وہ کر جاتے ہیں کیسے
گر کیجے گلا صاف مکر جاتے ہیں کیسے
آنے میں تو سو طرح کی صحبت تھی شب وصل
دیکھیں گے پر اب اٹھ کے سحر جاتے ہیں کیسے
رنجش کا مری پاس نہیں آپ کو مطلق
برہم تجھے ہم دیکھ کے ڈر جاتے ہیں کیسے
غصے میں نیا رنگ نکالے ہیں پری رو
جوں جوں یہ بگڑتے ہیں سنور جاتے ہیں کیسے
اس صاحب عصمت کو یہی سوچ ہے ہر صبح
بے وجہ مرے بال بکھر جاتے ہیں کیسے
ایام مصیبت کے تو کاٹے نہیں کٹتے
دن عیش کے گھڑیوں میں گزر جاتے ہیں کیسے
وہ وقت تو آنے دے بتا دیں گے شہیدیؔ
بن آئے کسی شخص پہ مر جاتے ہیں کیسے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی (Pg. 214)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا (2017)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.